وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام ذکر کرنے سے روکے اور اس کی خرابی کے [١٣٤] درپے ہو؟ انہیں تو یہ چاہیے تھا کہ مسجدوں میں اللہ سے ڈرتے ڈرتے داخل ہوتے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے
فہم القرآن : ربط کلام : نیا خطاب شروع ہوا ہے جس میں اہل کتاب کے ساتھ مشرکین مکہ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہود و نصاریٰ نے نا صرف ایک دوسرے کی آسمانی کتابوں کی نفی کی بلکہ اس سے آگے بڑھ کرانبیاء کرام (علیہ السلام) کی عظیم شخصیات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ عبادت گاہوں کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے مذہبی منافرت کے مورچے بنا لیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دوسرے کے معبد خانوں پر حملہ آور ہوئے اور طاقتوروں نے عبادت گاہوں کے تقدس و احترام کو پامال کیا۔ بسا اوقات ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی جیسا کہ بیت المقدس کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے۔ ایسا ہی کردار مشرکین مکہ کا تھا۔ بیت اللہ جس کی تعمیر کا مقصد ہی اس میں اللہ کی عبادت کرنا اور اسے زیارت گاہ قرار دیتے ہوئے مرکزِتوحید ٹھہرایا گیا ہے۔ ایک عرصہ تک نبی محترم {ﷺ}اور مسلمانوں کو اس کی زیارت سے محروم رکھا اور اس میں عبادت کرنے سے منع کردیا گیا۔ یہ تو اسلام کی خصوصیت ہے کہ جس نے نظریاتی اختلافات کے باوجود ہر عبادت گاہ کو احترام کی نظر سے دیکھنے کا حکم دیا ہے۔ جس کی آپ نے اس وقت عملاً اعلیٰ مثال قائم فرمائی جب نجران کے عیسائی آپ سے اسلام کے بارے میں مذاکرات کرنے لیے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے گفتگو کے دوران ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو آپ {ﷺ}یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمیں اب نماز پڑھنا ہے۔ یہ سنتے ہی وفد کہنے لگا کہ اگر اجازت ہو تو ہم بھی اپنے طریقے اور قبلہ کے مطابق آپ کی مسجد میں نماز ادا کرلیں؟ آپ نے بڑی خوشی کے ساتھ انہیں نماز پڑھنے کی اجازت دے کر عملًا یہ ثابت کیا کہ واقعتا مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور ان میں ہر کسی کو اللہ کی عبادت کرنے کا حق ہے اور ملنا چاہیے۔ [ تفسیر ابن کثیر : آل عمران :61] بشرطیکہ باطل نظریات کا پرچار اور اس میں بد نظمی نہ کی جائے کیونکہ کسی شخص کو دوسرے کی عبات گاہ میں جا کر اپنے نظریات پھیلانے کا حق نہیں پہنچتا۔ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتاکہ انہوں نے کسی علاقے میں بھی اپنے دور حکومت میں دوسروں کے معبد خانوں میں جا کر تبلیغ کی ہو بلکہ مسلم حکمرانوں نے ان کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا۔ البتہ کسی کو مسجدوں میں شور و غل اور بدنظمی پیدا کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ مسجد بالخصوص بیت اللہ کا ماحول خراب کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دنیا میں ذلیل اور آخرت میں شدید عذاب میں مبتلا کرے گا۔ مسجدوں کا ماحول اتنا سنجیدہ اور عبادت گزاری کا ہونا چاہیے کہ کوئی بد تمیزی اور شر پسندی کی کوشش کرے تو اپنے آپ میں خفّت اور ذلّت محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے جو لوگ مسجدوں میں بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑا کرتے ہیں ایسے لوگ بالآخر لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوجاتے ہیں۔ آپ نے مسجد اور بازار کا فرق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجدوں میں اس طرح بلند آواز سے گفتگو نہیں کرنا چاہیے جس طرح منڈی اور بازار میں کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید کی تلاوت مناسب آواز سے کرنا چاہیے تاکہ ہر آدمی یکسوئی اور پورے انہماک کے ساتھ ذکر و فکر اور اللہ کی عبادت کرسکے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {ﷺ}لِیَلِیَنِیْ مِنْکُمْ أُولُوا الْأَحْلَامِ وَالنُّھٰی ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثَلَاثًا وَّإِیَّاکُمْ وَھَیْشَاتِ الْأَسْوَاقِ) [ رواہ مسلم : کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف وإقامتھا] ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ {ﷺ}نے فرمایا میرے قریب عقلمند لوگ کھڑے ہوا کریں۔ پھر ان سے کم۔ یہ کلمات آپ نے تین دفعہ دہرائے اور فرمایا مسجدوں میں بازاروں کی طرح شور و غوغا نہ کیا کرو۔“ مسائل: 1۔ اللہ کے گھروں سے لوگوں کو روکنے والا ظالم ہے وہ دنیا و آخرت میں ذلیل ہوگا۔ 2۔ شرارتی لوگوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: مسجد کا مقام واحترام : 1۔ مسجدیں صرف اللہ کی عبادات کے لیے ہیں۔ (الجن :18) 2۔ مسجدیں شرک سے پاک ہونی چاہییں۔ (الحج :26) 3۔ مسجدوں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ (الحج :26) 4۔ مسجدیں نماز اور اعتکاف کے لیے ہوتی ہیں۔ (البقرۃ:125) 5۔ مسجدیں آباد کرنا صرف ایمانداروں کا حق ہے۔ (التوبۃ:18) 6۔ مشرک کو بیت اللہ میں داخل ہونے کا حق نہیں ہے۔ (التوبۃ:28)