سورة الانفال - آیت 38

قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَنتَهُوا يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِن يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(اے نبی) ان کافروں سے کہئے کہ اگر وہ اب بھی باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اگر پہلے سے کام ہی کرتے رہے تو گذشتہ قوموں میں جو سنت الٰہی جاری رہی [٣٩] (وہی سلوک ان سے بھی ہوگا)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : کفار اور مشرکین کو جہنم کی وارننگ دینے کے بعد ایک دفعہ پھر نبی اکرم (ﷺ) کو انھیں نصیحت کرنے کا ارشاد ہوا ہے۔ اے رسول! کفار کو پوری سوز مندی کے ساتھ سمجھائیں کہ یہ لوگ اپنے کفر و شرک سے باز آجائیں تو ان کے تمام جرائم اور گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ اگر یہ کفر و شرک کی روش پر قائم رہیں تو انھیں اپنے سے پہلے مجرموں کے انجام کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے کمال شفقت کا اظہار کرتے ہوئے کفار کو ایک دفعہ پھر سمجھانے کا ارشاد فرمایا کہ اے رسول ! ان کو پھر سمجھاؤ کہ جو کچھ تم کرچکے سو کرچکے۔ اگر اب بھی کفر و شرک سے باز آجاؤ تو نہ صرف تمھارے ماضی پر کوئی عقوبت نہیں ہوگی بلکہ تمھارا رب اتنا رحیم و کریم ہے کہ وہ تمھاری ماضی کی تمام غلطیوں کو معاف کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس قدر حلیم و غفور ہے جو شخص بھی سچے دل کے ساتھ توبہ کرتا ہے نہ صرف اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے بلکہ اس کی سیئات کو حسنات میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ لوگ بار بار موقع دینے کے باوجود اپنا فکر و عمل نہیں بدلتے تو انھیں فرمائیے کہ تمھارا انجام تم سے پہلے لوگوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ نبی کریم (ﷺ) نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے۔ (عن عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ () فَقُلْتُ ابْسُطْ یَمِینَکَ فَلْأُبَایِعْکَ فَبَسَطَ یَمِینَہٗ قَالَ فَقَبَضْتُ یَدِی قَالَ مَا لَکَ یَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ یُغْفَرَ لِی قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَمَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ رَسُول اللّٰہِ () وَلَا أَجَلَّ فِی عَیْنِی مِنْہُ وَمَا کُنْتُ أُطِیقُ أَنْ أَمْلَأَ عَیْنَیَّ مِنْہُ إِجْلَالًا لَہُ وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَہُ مَا أَطَقْتُ لِأَنِّی لَمْ أَکُنْ أَمْلَأُ عَیْنَیَّ مِنْہُ وَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ثُمَّ وَلِینَا أَشْیَاءَ مَا أَدْرِی مَا حَالِی فیہَا فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِی نَائِحَۃٌ وَلَا نَارٌ) [ رواہ مسلم : کتاب التفسیر، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِين ﴾] ” حضرت عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اللہ کے رسول (ﷺ) اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ جب آپ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے فرمایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا تب آپ پوچھتے ہیں اے عمرو! کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں۔ ارشاد ہوا کہ وہ کونسی شرط ہے؟ میں نے عرض کی کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں۔ فرمایا عمرو تو نہیں جانتا یقیناً اسلام پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے اسی طرح ہجرت سے پہلے کے بھی گناہ ختم ہوجاتے ہیں۔ اور یقیناً حج سے بھی سابقہ غلطیاں معاف ہوجاتی ہیں۔ رسول معظم (ﷺ) سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہ تھا۔ اور نہ ہی میری آنکھ میں آپ (ﷺ) سے زیادہ کسی کا جلال تھا۔ میں انہیں اس جلال کی وجہ سے آنکھ بھر کے نہیں دیکھ سکا۔ اگر مجھ سے کوئی سوال کرے کہ میں آپ (ﷺ) کا کوئی وصف بیان کروں تو اس کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے آپ کو کبھی آنکھ بھر کے ہی نہیں دیکھا۔ اگر میں اس حال میں فوت ہوگیا تو میں امید کرتا ہوں کہ میں اہل جنت میں سے ہوں گا۔ پھر اللہ مجھے جنت میں ولی مقرر کر دے تو میں نہیں جانتا وہاں کس حال میں ہوں گا تو جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی اور آگ نہ لے کے آنا۔“ ﴿إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَان اللّٰہُ غَفُورًارَّحِیمًا﴾[ سورۃ الفرقان :70] ” ہاں جو شخص توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“ مسائل : 1۔ خدا کے منکروں کو بار بار سمجھانا چاہیے۔ 2۔ توبہ کرنے اور کفر و شرک سے باز آنے والے کے اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔ 3۔ خدا کے باغیوں کو اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام یاد رکھنا چاہیے۔