وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم تھوڑے سے تھے، زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے اور تمہیں [٢٦] یہ خطرہ لگا رہتا تھا کہ لوگ تمہیں کہیں اچک کر نہ لے جائیں پھر اللہ نے تمہیں جائے پناہ مہیا کی اور اپنی مدد سے تمہیں مضبوط کیا اور کھانے کو پاکیزہ چیزیں دیں گا تاکہ تم شکرگزار [٢٧] بنو
فہم القرآن : ربط کلام : فتنۂ خاصہ سے بچنے کی تلقین کرنے کے بعد مسلمانوں کو ان کی مکی زندگی کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنا احسان جتلایا ہے اور اس سے نجات کا تذکرہ کیا ہے۔ کیونکہ مکہ میں مسلمان اجتماعی آزمائش میں مبتلا تھے۔ مسلمان مکہ معظمہ میں تھوڑے اور کمزور ہونے کی وجہ سے مشرکین کے مظالم کا اس قدر شکار تھے کہ ہر وقت سہمے اور ڈرے رہتے تھے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے صحابہ (رض) اور رسول کریم (ﷺ) کی ذات بھی ان مظالم سے محفوظ نہ تھی۔ سر بازار آل یا سر (رض) کو پیٹتے ہوئے حضرت سمیہ (رض) کو دولخت کردیا گیا۔ مزدور صحابہ کی خون پسینے کی کمائی ضبط کرلی گئی، نبی کریم (ﷺ) اور آپ کے خاندان کو مسلمانوں کے ساتھ تین سال شعب ابی طالب میں محصور رکھا گیا۔ مسلمانوں کو پہلے حبشہ کی طرف اور پھر مدینہ کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور کردیا کیا۔ ان مصائب و آلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو سمجھایا ہے کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی بات کو قبول نہیں کرو گے تو یاد رکھو تم پر دوبارہ ایسے حالات وارد ہو سکتے ہیں۔ لیکن تم نے رسول کی دعوت کو قبول کیا اور اس پر ثابت قدم رہے۔ جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے اس کربناک صورت حال سے نجات دیتے ہوئے تمھیں مدینہ کی ریاست عطا فرمائی اور اپنی خاص مدد سے اسے مضبوط کرتے ہوئے تمھارے لیے رزق حلال کے دروازے کھول دیے تاکہ تم اپنے رب کے شکر گزار بنو۔ اس آیت میں غزوۂ بدر کی طرف بھی اشارہ ہے جس کو موت سمجھتے ہوئے تم دشمن سے کانپ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تم جیسے کمزور اور بے سروسامان لوگوں کو دشمن پر غلبہ عطا کر کے مال غنیمت اور فتح کی کامیابی سے ہمکنار کرکے مدینہ کی ریاست کیا اور تمھیں مال غنیمت عطا فرمایا قدر محفوظ کردیا کہ جس سے تمھارے لیے رزق حلال کے دروازے کھلے اور فتح و کامرانی کے راستے روشن ہوئے۔ اللہ کی نصرت و حمایت اور رزق حلال کی فراوانی کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ تم اس کے شکر و حمد کے خوگر ہوجاؤ۔ ( عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ دُعَاءٌ حَفِظْتُہُ مِنْ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) لاَ أَدَعُہُ اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی أُعْظِمُ شُکْرَکَ وَأُکْثِرُ ذِکْرَکَ وَأَتَّبِعُ نَصِیحَتَکَ وَأَحْفَظُ وَصِیَّتَک ) [ رواہ الترمذی : باب فِی الاِسْتِعَاذَۃِ] حضرت ابی سعید مقبری حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ دعاء میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے جب سے یاد کی اس کو چھوڑا نہیں۔ اے اللہ مجھے سب سے زیادہ شکر گذار، کثرت سے ذکر کرنے، ہدایت کی پیروی کرنے اور وصیّت کی حفاظت کرنے والا بنا۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ہی کمزور اور تھوڑے لوگوں کی مدد کرنے والا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد نہ فرمائے تو دشمن مسلمانوں کو ختم کردیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ رزق حلال اور فتح و کامیابی عطا فرمائے تو انسان کو اس کا شکر گزار رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا حکم : 1۔ لوگو ! اللہ کو یاد کرو اللہ تمھیں یاد کرے گا اور اس کا شکر ادا کرو کفر نہ کرو۔ (البقرۃ:152) 2۔ لوگو! تم اللہ کا شکر ادا کرو اور ایمان لاؤ۔ اللہ بہت ہی قدر دان ہے۔ (النساء :147) 3۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو وہ مزید عطا فرمائے گا۔ (ابراہیم، آیت :7) 4۔ اللہ نے تمھیں دل، آنکھیں اور کان دیے تاکہ تم شکر کرو۔ (السجدۃ:9) 5۔ اللہ کی پاکیزہ نعمتیں کھا کر اس کا شکر کرو۔ (البقرۃ:172) 6۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرو۔ (العنکبوت :17) 7۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں تمھارے لیے متاع حیات بنایا تاکہ تم شکر ادا کرو۔ (الاعراف :10) 8۔ اللہ نے جانوروں کو تمھارے لیے مسخر کیا تاکہ تم شکر کرو۔ (الحج :36)