وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأَسْمَعَهُمْ ۖ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ
اگر اللہ ایسے لوگوں میں کچھ بھی بھلائی دیکھتا تو انہیں سننے [٢٢] کی توفیق بخش دیتا۔ اور اگر وہ انہیں یہ توفیق دے بھی دیتا تو بھی بے رخی کے ساتھ پیٹھ پھیر جاتے
فہم القرآن : (آیت 23 سے 24) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافق نہیں سننا چاہتے تو نہ سنیں۔ اے مومنوں تمھیں ضرور اللہ اور اس کے رسول کی بات سننا اور ماننا چاہیے۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا ارشاد سننے کے باوجود ایسا طرز حیات اختیار کرتے ہیں جیسا کہ انھوں نے اسے سنا ہی نہیں۔ ان کو جانوروں کے ساتھ تشبیہ دے کر فرمایا یہ عقل و فکر سے عاری ہیں۔ سورۃ الاعراف آیت 179میں ان لوگوں کو جانوروں سے بدتر شمار کرتے ہوئے انھیں غافل قرار دیا گیا ہے۔ یہاں فرمایا ہے اگر اللہ تعالیٰ ان میں خیر کا جذبہ دیکھتا تو ان کو بات سننے، سمجھنے کی توفیق دیتا۔ کیونکہ یہ جانوروں کی طرح محض اپنے مالک کی آواز سنتے ہیں سمجھتے نہیں۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہے۔ اسی لیے انھیں ہدایت سے نہیں نوازا گیا۔ ایسے لوگوں کو اگر جبراً کوئی بات سنوائی جائے تو پھر بھی وہ اعراض کرنے والے ہوں گے۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کے بارے میں آیا ہے کہ ان کے سروں پر پہاڑ بلند کیا گیا لیکن پھر بھی انھوں نے ماننے سے انکار کردیا تھا۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے جو جان بوجھ کر بات کو سننا اور اسے سمجھنا نہیں چاہتے لہٰذا اے مسلمانو! تم اس طرح کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے اللہ اور اس کے رسول کی بات کو قبول کرو۔ جب بھی تمھیں اللہ کا رسول (ﷺ) بلائے تم اس کی طرف دوڑتے ہوئے آؤ یہی تمھارے زندہ اور عقل مند ہونے کا ثبوت ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا یہ معنیٰ نہیں کہ بندہ ہدایت طلب کرنا چاہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ بندے اور ہدایت کے درمیان حائل ہوگیا ہے۔ اس فرمان کا مفہوم یہ ہے جب کوئی شخص ہدایت سے ارادۃً انحراف کرے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے ارادے کے مطابق اس کو ہدایت کی طرف نہیں آنے دیتا کیونکہ ہدایت خیر ہے اور خیر ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اس کے طالب اور اس کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اسی بات کو نبی اکرم (ﷺ) نے یوں بیان فرمایا۔ (عَن عَبْدَ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ یَقُوْلُ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ إِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ کُلَّہَا بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَّاحِدٍ یُصَرِّفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ) [ رواہ مسلم : کتاب القدر، باب تصریف اللہ القلوب کیف شاء] ” حضرت عبداللہ بن عمرو بن (رض) عاص فرماتے ہیں کہ بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) کو انہوں نے یہ فرماتے سنا کہ آدم کی اولاد کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جو ایک ہی دل کی طرح ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جس طرح چاہتا ہے پھیرتا رہتا ہے۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُولَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دینِکَ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ما جاء ان القلوب بین اصبعی الرحمان] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) اکثر یہ دعا کرتے تھے۔ اے اللہ دلوں کو پھیرے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔“ (عن مُعَاوِیَۃَ یَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُولُ مَنْ یُّرِدْ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب مَنْ یُّرِدْ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّین] ” حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (ﷺ) سے سنا آپ نے فرمایا اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ہدایت کے طالب کو ہی ہدایت سے نوازتا ہے۔ 2۔ ہدایت نہ چاہنے والے کو جبراً ہدایت کی طرف بلایا جائے تو وہ پھر بھی اس سے اعراض کرتا ہے۔ 3۔ ایماندار کو ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کی بات کو قبول کرنا چاہیے۔ 4۔ جو شخص رسول اکرم (ﷺ) کے فرمان سے بے پروائی برتتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اور دور کردیتا ہے۔ 5۔ تمام لوگوں نے بالآخر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جمع ہونا ہے۔