خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ
(اے نبی!) درگزر کرنے کا رویہ اختیار کیجئے، معروف کاموں کا حکم دیجئے۔ اور جاہلوں [١٩٧] سے کنارہ کیجئے
فہم القرآن : (آیت 199 سے 202) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی توحید بتلانے اور سمجھانے پر مشرک اور کافر اشتعال میں آکر بد کلامی کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں درگزر کرنے کا حکم۔ یہاں مبلغ کو چار ہدایات دی گئی ہیں۔ 1۔ اختلاف اور اشتعال کے مقابلہ میں حوصلہ رکھنا اور درگزر کرنا۔ 2۔ عرف کے مطابق تبلیغ کرنا۔ 3۔ جہلا سے اعراض برتنا۔ 4۔ انسان ہونے کے ناتے سے طبیعت میں غصہ اور اشتعال پیدا ہو تو شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا۔ تبلیغ کے میدان میں ایک مبلغ کو ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے اسے سمجھ داری اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اگر دین کا کارکن اور مبلغ مشتعل ہوجائے تو کام آگے بڑھنے کے بجائے نہ صرف رک جاتا ہے بلکہ معاملہ جنگ و جدال تک پہنچ جاتا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) فطری اور جبلی طور پر حوصلہ اور برد باری کے پیکر تھے۔ آپ کی حیات مبارکہ میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ آپ نے اشتعال میں آکر کسی کو ترکی بہ ترکی جواب دیا ہو۔ اس کے باوجود آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ معافی اور درگزر کا رویہ اختیار کریں۔ یہی تعلیم آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو (رض) کو یمن بھیجتے ہوئے دی تھی۔ پہلے آپ نے ارکان اسلام کی ترتیب بتلائی اور فرمایا کہ سب سے پہلے ان لوگوں کو توحید و رسالت سے آگاہ کرنا جب لوگ کلمہ طیبہ کی شہادت دیں تو پھر انھیں نماز پر لگانا اور نماز کے بعد زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دینا اور لوگوں سے زکوٰۃ لے کر وہاں کے غریبوں پر خرچ کرنا اور یاد رکھنا کہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور آسانی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کے درمیان نفرت پیدا کرنے سے اجتناب کرنا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَۃٌ مِنْ الرَّحْمٰنِ فَقَال اللّٰہُ مَنْ وَصَلَکِ وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَکِ قَطَعْتُہٗ )[ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں انہوں نے فرمایا بلاشبہ رحم رحمٰن سے ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو کوئی تمہیں ملائے گا اسے میں ملاؤں گا اور جو کوئی تمہیں قطع کرے گا میں اسے قطع کروں گا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ لَیْسَ الشَّدِید بالصُّرْعَۃِ إِنَّمَا الشَّدِیدُ الَّذِی یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ )[ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب الحذر من الغضب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا طاقتور وہ نہیں جو مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر کنٹرول رکھے۔“ (عن سُلَیْمَان بن صُرَدٍ (رض) قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ (ﷺ) وَنَحْنُ عِنْدَہٗ جُلُوسٌ وَأَحَدُہُمَا یَسُبُّ صَاحِبَہٗ مُغْضَبًا قَدْ اِحْمَرَّ وَجْہُہٗ فَقَال النَّبِیُّ (ﷺ) إِنِّی لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا لَذَہَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ لَوْ قَالَ أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ فَقَالُوا للرَّجُلِ أَلَا تَسْمَعُ مَا یَقُول النَّبِیُّ (ﷺ) قَالَ إِنِّی لَسْتُ بِمَجْنُونٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب] ” حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں دو آدمیوں نے نبی اکرم (ﷺ) کی موجودگی میں باہم گالی گلوچ کی اور ہم آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں میں سے ایک شدید غصے میں تھا وہ دوسرے کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ تھا۔ سرکار دو عالم (ﷺ) نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں اگر وہ اسے کہہ دے تو اس سے اس کا غصہ جاتا رہے۔ وہ کہے : اَعُوْذُ بالِلّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ” میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔“ صحابہ کرام (رض) نے اس شخص سے کہا کیا تم نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان نہیں سنتے ہو ؟ اس شخص نے کہا میں پاگل تو نہیں ہوں۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ یَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب ماکا ن یتخولہم بالموعظۃ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا آسانیاں پیدا کرو مشکلات پیدا نہ کرو لوگوں کو خوشخبریاں دو اور متنفر نہ کرو۔“ 2۔ دوسرا حکم آپ اور آپ کے حوالے سے ہر مبلغ کو یہ دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو عرف کی تبلیغ کریں اور عرف کا معنیٰ نیک کام، تبلیغ اور نصیحت کرنا بھی ہے کہ مبلغ کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ مرقع، مسبح، ردیف اور قافیہ ملانے کے بجائے سادہ اور مؤثر الفاظ میں لوگوں کو وعظ کرے۔ اس کے لب و لہجہ، انداز اور الفاظ میں تکلف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ نبی اکرم (ﷺ) کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ اعلان فرمائیں کہ میں آپ سے تبلیغ کے بدلے نہ کوئی اجر طلب کرتا ہوں اور نہ ہی کسی قسم کا تکلف کرنے والا ہوں۔ (ص، آیت :86) اس کے ساتھ ہی مبلغ کو وعظ بالخصوص خطبہ جمعہ میں شعر و شاعری سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ رسول اکرم (ﷺ) کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے آپ کو شعر و شاعری نہیں سکھلائی اور نہ ہی آپ کی شان کے لائق ہے کہ آپ شعر گوئی کا مظاہرہ کریں۔ ( یٰسٓ، آیت :69) (عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ رُوَیْبَۃَ (رض) قَالَ رَأٰی بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ عَلَی الْمِنْبَرِ رَافِعًا یَدَیْہِ فَقَالَ قَبَّحَ اللّٰہُ ہَاتَیْنِ الْیَدَیْنِ لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مَا یَزِیدُ عَلٰی أَنْ یَقُولَ بِیَدِہٖ ہٰکَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہٖ الْمُسَبِّحَۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ] ” حضرت عمارہ بن رویبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بشر بن مروان کو منبر پردیکھا کہ وہ دونوں ہا تھوں کو بلند کیے ہوئے تھے حضرت عمارہ کہنے لگے اللہ ان ہاتھوں کو تباہ کرے ! میں نے اللہ کے رسول (ﷺ) کو دیکھا آپ اس سے زیادہ اشارہ نہیں کرتے تھے یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی انگشت شہادت کی طرف اشارہ کیا۔“ 3۔ اعراض : اس سے مراد بحث و تکرار اور جنگ جدال سے بچنا ہے۔ مبلغ تبلیغ کے میدان میں مخالف کی بدکلامی کا جواب ترکی بہ ترکی دے تو سننے والے اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔ بدکلامی اور طعنہ زنی کرنے والے مبلغین کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے وہ کونسا الزام اور بدکلامی ہے۔ جس سے نبی اکرم اور انبیاء کو واسطہ نہیں پڑا لیکن آپ اور کسی نبی نے اپنے مخالف کو برا کہنا تو درکنار کوئی سطحی لفظ بھی نہیں بولا۔ 4۔ وعظ ونصیحت کے میدان میں درگزر کرنے اور حوصلہ مندی کے باوجود بعض دفعہ ایسے جہلا سے واسطہ پڑتا ہے جو الجھے بغیر نہیں رہ سکتے ایسی صورت میں ایسے لوگوں سے اعراض کرنا چاہیے اگر ان کی اشتعال انگیز باتوں پر طبیعت میں غصہ پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ غصہ شیطان کی طرف سے ہوا کرتا ہے۔ جو لوگ گناہوں سے بچنے اور اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں جو نہی انھیں شیطان کا غلبہ یا اس کے اثرات محسوس ہوں تو وہ اس پر چوکنے ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب نہ کی جائے تو شیطان اور اس کے ساتھی انسان کو گمراہی میں مبتلا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔ غصہ اور اشتعال ہمیشہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی فریاد سننے والا اور مبلغ کی نیت اور مخالف کی جہالت کو جاننے والا ہے۔ (عن ابی ہُرَیْرَۃَ قال قالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَأْتِی الشَّیْطَانُ أَحَدَکُمْ فَیَقُولُ مَنْ خَلَقَ کَذَا مَنْ خَلَقَ کَذَا حَتّٰی یَقُولَ مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ فَإِذَا بَلَغَہُ فَلْیَسْتَعِذْ باللّٰہِ وَلْیَنْتَہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس وجنودہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا تم میں سے کسی ایک کے پاس شیطان آتا ہے اور کہتا ہے فلاں چیز کس نے پیدا کی ؟ فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ یہاں تک کہ وہ کہتا ہے تیرے رب کو کس نے پیدا کیا۔ جب کوئی اس خیال کو پہنچے تو اسے چاہیے کہ اللہ کی پناہ مانگے اور اس سے باز آجائے۔“ مسائل : 1۔ جھگڑے اور مخالفت میں حوصلے اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ 2۔ برے خیالات آنے پر شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : جاہل لوگوں کی نشانیاں : 1۔ اللہ کے سوا کسی اور کو معبود بنانا جاہلوں کا کام ہے۔ (الاعراف :138) 2۔ جاہل اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کی ترغیب دیتے ہیں۔ (الزمر :64) 3۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے روگردانی کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ (النمل :55) 4۔ بیویوں کو چھوڑ کر لونڈے بازی کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ (النمل :55) 5۔ سوال نہ کرنے والے حاجت مند کو جاہل لوگ غنی خیال کرتے ہیں۔ (البقرۃ:273) 6۔ فضول جواب دینا جہالت کی نشانی ہے۔ (البقرۃ:67)