هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
وہی تو ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی بنائی تاکہ اس کے ہاں سکون حاصل کرے۔ پھر جب کسی مرد نے اپنی بیوی سے صحبت کی تو اسے ہلکا سا حمل ہوگیا جس کے ساتھ وہ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں اپنے پروردگار سے دعا کرنے لگے کہ : اگر تو ہمیں تندرست بچہ عطا کرے تو ہم یقینا شکر کرنے والوں سے ہونگے
فہم القرآن : (آیت 189 سے 192) ربط کلام : سابقہ آیات میں یہ ثابت کیا گیا ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) مختار کل اور عالم الغیب نہیں۔ مختار کل اور غیب کا علم جاننے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وہی ذات ہے جس نے پہلے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس سے اس کی بیوی کو پیدا فرمایا ہے۔ عقیدۂ توحید دین کی روح اور اس کی بنیاد ہے۔ اسے سمجھانے کے لیے قرآن مجید نے کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزوں سے استدلال کرکے عقیدۂ توحید کو واضح کیا ہے۔ سب سے پہلا توحید کے لیے جو استدلال پیش کیا گیا ہے وہ انسان کی تخلیق کے متعلق ہے۔ پہلی وحی میں فرمایا گیا کہ اس رب کے نام کے ساتھ پڑھیے جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا سورۃ النساء آیت (1) میں ارشاد ہوا کہ لوگو ! اس رب کی نافرمانی سے بچو جس نے تمھیں ایک نفس سے پیدا فرمایا۔ اس سے اس کی بیوی کو جنم دیا اور پھر دونوں سے بے شمار مرد اور عورتیں پیدا فرمائیں۔ وہاں خَلَقَ اور یہاں جَعَلَ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنی پیدا کرنا اور بنانا ہے۔ پھر یہاں بیوی کے رشتے کی غرض و غایت بیان فرمائی کہ یہ رشتہ باہمی سکون کا باعث ہے۔ تاکہ باہم سکون حاصل کرتے ہوئے سلسلۂ تخلیق کی بنیاد بن سکے۔ ازدواجی تعلقات کے یہاں دو مقاصد بیان کیے ہیں۔ 1۔ میاں بیوی کے درمیان باہم اطمینان اور سکون کا رشتہ ہونا چاہیے جس کی تفصیل سورۃ الروم آیت 21میں یوں بیان کی ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ اس نے مردوں کی جنس سے ہی ان کی بیویوں کو پیدا کیا تاکہ ان سے سکون حاصل کریں۔ اس نے تمھارے درمیان محبت اور مہربانی کا جذبہ قائم فرمایا ہے۔ سورۃ البقرۃ آیۃ 187میں ازدواجی رشتہ کو ایک دوسرے کے لیے لباس قرار دیا گیا ہے۔ یعنی ازدواجی زندگی میں چار باتیں ہونی چاہیں۔ 1۔ باہم اطمینان اور اعتماد۔ 2۔ باہمی محبت۔ 3۔ ایک دوسرے پر شفقت و مہربانی کرنا۔ 4۔ ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنا۔ یہ وہ چار بنیادی تقاضے ہیں کہ اگر ان کا خیال رکھا جائے تو گھر کی زندگی پر سکون، امن و امان اور محبت و مہربانی کا گہوارا بن سکتی ہے۔ یہاں تخلیق انسانی کی ابتدائی کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے تَغَشّٰہَا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا معنیٰ ڈھانپ لینا ہے جو میاں بیوی کی صحبت اور تعلق کی طرف اشارہ ہے۔ جس کے نتیجہ میں بیوی صاحب امید ہوتی ہے اور اس پر کچھ مہینے ایسے گزرتے ہیں جن میں وہ اپنے معمول کے مطابق زندگی گزارتی ہے لیکن جب مادۂ منویہ خون کے بعد لوتھڑے میں تبدیل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں روح پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد عورت محتاط ہونے کے ساتھ اپنے وجود میں دن بدن ایک بوجھ محسوس کرتی ہے امید کے یہ ایام ایسے ہوتے ہیں جن میں میاں بیوی اپنے رب کے حضور مسلسل دعائیں کرتے ہیں کہ الٰہی! ہمیں خوبصورت اور خوب سیرت بیٹا عنایت فرما۔ ہم تیرے شکر گزار بن کر رہیں گے لیکن جب انھیں صحت مند بیٹا عنایت ہوتا ہے تو پھر اپنے خالق و مالک کے ساتھ دوسروں کو شریک گردانتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ شرک سے مبرا اور ان باتوں سے بلند و بالا ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کرتے ہیں۔ مشرک بتوں، فوت شدہ بزرگوں، چاند ستاروں فرشتوں اور جنات کو اللہ تعالیٰ کے کاموں میں شریک ٹھہراتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ وہ خود اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اور اس کی مخلوق ہیں اور پکارنے والوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ یہاں تک کہ ان پر کوئی افتادآپڑے تو اپنے آپ کو بھی بچا نہیں سکتے لیکن اس کے باوجود مشرک اپنی اولاد میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک سمجھتے ہوئے پیراں دتہ، عبدالرسول، عبدالعزیٰ وغیرہ نام رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ اپنی اولاد کو ساتھ لے کر بتوں اور مزارات کا طواف کرتے اور ان کے لیے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ یہ پہلے زمانے کے لوگ بچہ پیدا ہونے کے موقعہ شرک کرتے تھے آج کل تو مشرک اس حد تک شرک میں آگے بڑھ گئے ہیں کہ وہ شادی کے بعد مزارات کے چکر لگاتے ہوئے صاحب قبر سے اولاد مانگتے ہیں۔ مسائل :1۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک ہی نفس یعنی آدم سے پیدا کیا ہے۔ 2۔ میاں بیوی کے درمیان سکون اور اطمینان کا رشتہ ہونا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اولاد دینے والا نہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ مشرک کے شرک سے مبرا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ صرف اکیلا خالق ہے باقی سب اس کی مخلوق ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن :اللہ کے سوا کوئی مالک اور خالق نہیں : 1۔ مخلوق اللہ کی ہے۔ اللہ کے سوا کسی نے کچھ پیدا کیا ہے تو مجھے دکھاؤ۔ ( لقمان :11) 2۔ اگر آپ (ﷺ) ان سے زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں سوال کریں گے تو اللہ ہی کا نام لیں گے۔ ( لقمان :25) 3۔ یہ تمھارا رب ہے اس کے سوا دوسرا کوئی خالق نہیں۔ (الانعام :102) 4۔ اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمھیں زمین و آسمان میں رزق دیتا ہے ؟ (الفاطر :2) 5۔ تمھارا اللہ تمھارا رب ہے کیا اس کے سوا کوئی دوسرا خالق ہے ؟ (غافر :62) 6۔ ہر چیز اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ (یٰسین :83)