وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِي ۖ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ ۖ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ ۚ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) غصہ اور رنج سے بھرے ہوئے اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو انہیں کہا : تم لوگوں نے میرے بعد بہت [١٤٧] بری جانشینی کی۔ تمہیں کیا جلدی پڑی تھی کہ اپنے پروردگار کے حکم کا بھی انتظار نہ کیا ؟ پھر تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کو سر سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے ہارون نے کہا : اے میری ماں کے بیٹے! ان لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ہی ڈالتے۔ لہٰذا دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دو اور مجھے ان ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کرو
فہم القرآن : (آیت 150 سے 151) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر مطلع فرمایا کہ تیری قوم نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی ہے۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) واپس تشریف لائے۔ ادھر موسیٰ (علیہ السلام) کی مدت اعتکاف پوری ہوئی اور انھیں تورات عنایت فرما دی گئی۔ اُدھر ان کی قوم نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ جس کی موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں اطلاع دی کہ ” اے موسیٰ ٰتمہارے یہاں آنے کے بعد ہم نے تمہاری قوم کی آزمائش کی اور انھیں سامری نے گمراہ کردیا ہے۔“ (طٰہٰ، آیت :84) اب موسیٰ (علیہ السلام) غم و غصہ کی حالت میں قوم کی طرف واپس پلٹے اور اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو فرمایا کہ تم نے میری جانشینی کا حق ادا نہیں کیا تم برے جانشین ثابت ہوئے ہو۔ پھر بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر فرمایا اے لوگو! تم نے اپنے رب کا حکم آنے سے پہلے جلد بازی کا مظاہرہ کیا پھر تورات کی تختیاں ایک طرف پھینک دیں غم و غصہ کی حالت میں اپنے بھائی کے سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے جس کے جواب میں حضرت ہارون (علیہ السلام) نے نہایت عاجزانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے مادر زاد بھائی میری قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ وہ مجھے جان سے مار دیتی آپ ترس کھائیں اور مجھ پر دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع نہ دیں اور نہ ہی مجھے ظالموں کا ساتھی سمجھیں۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) کے جذبات ٹھنڈے ہوئے اور انھوں نے اس حرکت پر نہ صرف اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کی بلکہ اپنے بھائی کے لیے بھی مغفرت کی دعا کی کہ اے میرے رب ہمیں معاف فرما کر اپنی رحمت کے دامن میں لے لیجیے۔ تو سب سے بڑا مہربان ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے غیرت توحید میں آکر حضرت ہارون (علیہ السلام) پر ہاتھ اٹھایا جس پر انھوں نے اپنے رب کے حضور معافی مانگی اور حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں مظلوم تھے پھر ان کے لیے جناب موسیٰ نے کیوں ان کے لیے بخشش کی دعا مانگی۔ اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) قوم کے مقابلے میں کمزور واقع ہوئے اور قوم ان کے سامنے شرک میں مبتلا ہوگئی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی خطا پر معافی مانگنے کے ساتھ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اس کمزوری پر بھی اللہ سے معافی طلب کی کیونکہ انسان سے گناہ دانستہ طور پر سرزد ہو یا غیر دانستہ طور پر اسے بہرحال اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہونا چاہیے۔ یہی قرآن مجید اور سنت سے ثابت ہے کہ انسان کو بھول چوک اور دانستہ کیے ہوئے گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کے لیے معافی مانگنے کی وجہ ان کی دل جوئی بھی ہو سکتی ہے تاکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کو یقین ہوجائے کہ بھائی مجھ پر دلی طور پر راضی ہوچکے ہیں۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) مرتبہ کے لحاظ سے بڑے تھے۔ بزرگ دعا مانگتے ہیں اور چھوٹے آمین کہتے ہیں۔ تختیوں کے بارے میں بعض مفسرین نے بنی اسرائیل کی من گھڑت روایات کی بنیاد پر یہاں تک لکھ دیا ہے کہ سات میں سے چھ ٹوٹ گئیں جن میں دین کے متعلق مکمل تفصیلات تھیں انھیں آسمان پر اٹھا لیا گیا اور باقی جو بچی تھیں اس میں صرف عبادات کے مسائل تھے۔ اللہ تعالیٰ سے بھول چوک کی بھی معافی مانگنا چاہیے : ﴿ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِینَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ﴾ [ البقرۃ:286] ” اے ہمارے رب اگر ہم سے بھول چوک ہوجائے تو اس پر گرفت نہ کرنا اے ہمارے رب ہم پر اتنا بھاری بوجھ نہ ڈال جتنا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے ہمارے رب جس بوجھ کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے وہ ہم پر نہ ڈال ہم سے در گزر فرما، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا مولا ہے لہٰذا کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔“ (عَنْ فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ الْأَشْجَعِیِّ (رض) قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَۃَ (رض) عَمَّا کَانَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَدْعُو بِہِ اللّٰہَ قَالَتْ کَانَ یَقُول اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء ] ” حضرت فروہ بن نوفل اشجعی (رض) فرماتے ہیں میں نے ام المومنین حضرت عائشہ (رض) سے رسول معظم (ﷺ) کی دعائیں جو وہ اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے ان کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے فرمایا نبی اکرم (ﷺ) فرمایا کرتے تھے اے اللہ میں نے جو عمل کیا اور جو نہیں کیا اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ مسائل : 1۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی قوم گمراہ ہونے پر اللہ تعالیٰ نے مطلع فرمایا۔ 2۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے غیرت توحید میں آکر اپنے بھائی کے سرکے بال کھینچے۔ 3۔ اپنے اور مسلمان بھائیوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگنا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : ظالموں کا ساتھی نہیں بننا چاہیے : 1۔ اے رب ہمارے ہمیں ظالم قوم سے بچا ئیو۔ (الاعراف :47) 2۔ اے میرے رب مجھے ظالم قوم سے بچائیو۔ (المومنون :94) 3۔ اے اللہ ہمیں ظالم قوم سے بچائیو۔ (یونس :85) 4۔ اے میرے رب مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔ (تحریم :11)