سورة البقرة - آیت 3

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو غیب [٤] پر ایمان لاتے ہیں، نماز [٥] قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں [٦] دے رکھا ہے، اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : کتاب حق کے تعارف کے بعد اس کے پیغام کا بیان اور ہدایت پانے والوں کے چھ جامع اور مرکزی اوصاف کا تذکرہ۔ ایمان کا اولیّن تقاضا یہ ہے کہ انسان ان دیکھی حقیقتوں کا اقرار کرے۔ جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا اور اس کے حکم کے مطابق ہر بات کو ماننا شرط اول ہے۔ یہی انسانیت کا شرف اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کی پاسداری ہے۔ ان حقیقتوں پر ان دیکھے ایمان لانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آدمی میں یہ استعداد اور طاقت نہیں کہ وہ اپنی آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی زیارت کرسکے اور نہ ہی اس میں ملائکہ اور قبر کے عذاب کو دیکھنے کی ہمت ہے حتی کہ انسان تو ان آنکھوں کے ساتھ جنت کے حسن و جمال کی جھلک بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ رسول محترم {ﷺ}کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ جب آپ {ﷺ}نے جبرئیل امین (علیہ السلام) کو اصلی حالت میں ملاحظہ فرمایا تو آپ کا جسم اطہر تھر تھرانے لگا، رونگٹے کھڑے ہوگئے آپ {ﷺ}اپنے آپ میں شدید خطرہ محسوس کرتے ہوئے گھر آ کر شدید گرمی کے موسم کے باوجود کمبل لے کرلیٹ گئے اور کچھ سکون کے بعد اپنی زوجہ مکرمہ سے اظہار فرمایا کہ میں اپنے بارے میں شدید اندیشہ محسوس کر رہا ہوں۔ (رواہ البخاری : کتاب بدء الوحی) قبر کے عذاب کے بارے میں فرمایا : ” اگر انسان اور جن قبر کا عذاب سن لیں تو بے ہوش ہوجائیں۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب المیت) جنت کی حور کے بارے میں ارشاد ہوا : ” اگر وہ آسمان سے نیچے جھانکے تو ہر چیز منور ہوجائے۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الحور العین) گویا کہ انسان اپنی ہمت سے بڑھ کر نہ حسن و جمال دیکھ سکتا ہے اور نہ ہیبت ناک منظر برداشت کرسکتا ہے اس بنا پر غیب پر ایمان لانا ایمان کی اولین شرط ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بندہ اور غلام ہے۔ غلام کا کام اپنے آقا کا حکم ماننا ہے، ہر حکم کی حقیقت جاننا نہیں۔ اقامت صلوٰۃ : اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ عبادت کا لفظ بڑا جامع ہے عبادت کی سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ صورت نماز ہے۔ اسی لیے پہلے انبیاء اور امتوں کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور امت محمدیہ کو بھی یہی حکم ہوا ہے کہ وہ نماز قائم کریں(النور: 52)۔ دین اجتماعیت کا سبق دیتا ہے اور نماز اس کا عملی نمونہ پیش کرتی ہےتاکہ مسلمانوں میں وحدت اور اجتماعیت کا شعور پیدا ہو۔ اقامت صلوٰۃ سے مراد اس کے ظاہری آداب و شرائط بجا لانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور روحانی فوائد کا حصول ہے۔ اس لیے یہاں ” اقرء وا الصلوٰۃ“ یا صرف ” صلوا“ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ﴿ اقیموا الصلوٰۃ﴾ کا جامع لفظ استعمال فرما کر واضح کیا گیا ہے کہ نماز پڑھنے اور ادا کرنے کے لحاظ سے جامع اور مکمل ہونی چاہیے۔ اس میں طہارت، ارکان کی صحیح ادائیگی، اخلاص اور جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم شامل ہے۔ اس طرح یہ پانچ وقت کا اجتماعی عمل ہے۔ ﴿اَقِیْمُوا الدِّیْنَ﴾ (الشوریٰ:13) کا لفظ پورے دین کے لیے بھی استعمال ہوا۔ جس طرح دین کا تقاضا صرف اس کے احکامات پڑھ لینے سے پورا نہیں ہوتا جب تک اسے پورے طور پر نافذ نہ کیا جائے ایسے ہی نماز پوری جامعیت کے ساتھ اس وقت قائم ہوگی جب اس کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ نمازی کو حکم ہے کہ نماز میں نظر کو ادھر ادھر نہ اٹھائے۔ یہی حکم نماز کے بعد ہے کہ غیر محرم عورتیں سامنے آئیں تو مرد اپنی نگاہوں کو نیچے رکھا کریں۔ تشہد میں نمازی درود اور التحیات میں سب کی سلامتی کی دعائیں مانگتا ہے۔ یہی جذبہ اسے نماز کے بعد بھی اختیار کرنا چاہیے۔ اسی طرح نماز کے اور بھی تقاضے ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ نماز میں اس قدر انہماک اور تعلق باللہ قائم ہونا چاہیے جیسے بندہ اپنے رب کی زیارت کر رہا ہو۔ (أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ) (رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب سؤال جبریل النبی {}عن الإیمان والإسلام والإحسان) ” اپنے رب کی عبادت اس تصور کے ساتھ کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ تصور پیدا نہیں ہوسکتا تو کم از کم یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔“ زکوٰۃ کی فرضیت : قرآن نے لوگوں کو نماز با جماعت کی شکل میں مسجد میں پانچ وقت اکٹھا ہونے کا حکم دیا ہے تو یہ بات کس طرح گوارا ہوسکتی تھی کہ ایک شخص خوشحال زندگی بسر کر رہا ہو اور اس کے ساتھ کھڑا ہونے والا جسم پر چیتھڑے لپیٹے ہوئے زندگی کے تھپیڑے کھاتا رہے اور صاحب ثروت اس کی پرواہ نہ کرے۔ اسلام کا اجتماعی نظام دو بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے ایک روحانی اور دوسری مادی معاشرے کی تطہیر، تزکیۂ نفس اور تعلق باللہ کے لیے پانچ وقت نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ باہمی ہمدردی، قرابت اور معاشی استحکام کے لیے زکوٰۃ فرض قرار دی گئی تاکہ معاشرتی اونچ نیچ اور معاشی افراط و تفریط کو توازن کے پیمانے کے قریب رکھتے ہوئے باہمی محبت و اخوت کی فضاء قائم کی جائے۔ قرآن مجید نے بار بار صدقہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس تحریک کو محض لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑا کہ جس کا دل چاہے خرچ کرے ورنہ مال پر مست ہو کر پھرتا رہے۔ زکوٰۃ کو فرض قرار دیتے ہوئے اسے ایمان کی مبادیات میں شامل فرمایا۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ اور نماز کا چھبیس مرتبہ اکٹھا ذکر ہوا ہے۔ نماز حقوق اللہ کی ترجمان ہے اور زکوٰۃ حقوق العباد کی پاسبان۔ یہاں لفظ زکوٰۃ کی بجائے ﴿رَزَقْنٰھُمْ﴾ استعمال فرما کر اشارہ دیا کہ اجتماعی زندگی کا میابی کے ساتھ گزارنے کے لیے زکوٰۃ ہی نہیں بلکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمایا ہے اس میں سے دوسروں پر خرچ اور صرف کرتا رہے۔ جسمانی قوت ہے تو نحیف اور ناتواں بندوں کی خدمت کرے، مالی استعداد ہے تو غریبوں اور ناداروں پر خرچ کرے، علم و بصیرت ہے تو لوگوں کی راہنمائی کرے، اقتدار اور اختیار ہے تو مجبوروں اور کمزوروں کی مدد کرتارہے۔ حضرت ابوبکر {رض}کا زکوٰۃ نہ دینے والوں کے متعلق حکم : (فَقَالَ وَاللَّہِ لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلاَۃِ وَالزَّکَاۃِ، فَإِنَّ الزَّکَاۃَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّہِ لَوْ مَنَعُونِی عَنَاقًا کَانُوا یُؤَدُّونَہَا إِلَی رَسُول اللَّہِ {}لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَی مَنْعِہَا ) (رواہ البخاری : باب وجوب الزکٰوۃ) ” حضرت ابو بکر صدیق نے کہا اللہ کی قسم ! میں ان لوگوں سے ضرور لڑائی کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے۔ یقیناً زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر لوگوں نے بکری کا بچہ دینے سے انکار کیا جو وہ اللہ کے رسول کے عہد میں دیا کرتے تھے۔ میں اس کے روکے جانے پہ لڑائی کروں گا۔“ مسائل : 1-غائب پر ایمان لاناضروری ہے۔ 2-نماز قائم کرنافرض ہے۔ 3-اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرنا چاہیے۔ 4-قرآن مجید اور پہلی کتابوں پر ایمان لانا اور آخرت کو یقینی جاننا ایمان کے بنیادی ارکان ہیں۔ 5-ارکان اسلام کے تقاضے پورے کرنے والے لوگ ہدایت یافتہ اور کامیاب ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن : نماز کی اہمیت : یہاں نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت واہمیت کے چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ ان شاء اللہ تفصیلی مسائل مرحلہ وار موقعہ بموقعہ بیان ہوں گے۔ 1- رسول اللہ {ﷺ}کو نماز کا حکم۔ (العنکبوت :45) 2-حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نماز۔ (ابراہیم :37) 3-حضرت موسیٰ {ﷺ}کو نماز کا حکم۔ (یونس :87) 4-حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نماز۔ (مریم :31) 5- بنی اسرائیل کو نماز کا حکم۔ (البقرۃ:83) 6- تمام امتوں کو اقامت صلوٰۃ کا حکم۔ (البینۃ:5) 7-نماز کا نظام قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ (الحج :44)