وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ
پھر ہم نے ان کا وارث ان لوگوں کو بنایا جو کمزور سمجھے [١٣٢] جاتے تھے اور اس سر زمین کا (بھی) وارث بنایا جس کے مشرق و مغرب میں ہم نے برکت رکھی [١٣٣] ہوئی ہے اور بنی اسرائیل کے حق میں آپ کے پروردگار کا اچھا وعدہ پورا ہوگیا کیونکہ انہوں نے صبر کیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ عمارتیں بناتے اور (انگوروں کے باغ) بیلوں پر چڑھاتے تھے، سب کو ہم نے تباہ کردیا
فہم القرآن : ربط کلام : آل فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور بنی اسرائیل کا کردار۔ بنی اسرائیل حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور میں مصر میں برسراقتدار آئے۔ اور مدت دراز تک انھیں اقتدار اور اختیار حاصل رہا لیکن اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے نہ صرف اقتدار سے محروم ہوئے بلکہ مصر میں انھیں تیسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا۔ وہ مدت تک فرعون کے مظالم سہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جناب موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی بے مثال جدوجہد سے بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے میں کامیابی نصیب ہوئی اور ان کے لیے شام اور فلسطین کی فتح کا دروازہ کھول دیا گیا۔ جس سر زمین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اس کے مشرق سے لے کر مغرب تک اللہ تعالیٰ نے برکات و ثمرات کے خزانے رکھے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو پورا فرمایا کہ انھیں آزادی جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ فرعون اور اس کی قوم جو کچھ کرتی تھی اسے تباہ کردیا گیا۔ ﴿یَعْرِشُوْنَ﴾ کا معنی کرتے ہوئے اہل علم نے لکھا ہے کہ اس سے مراد بڑے بڑے محلات اور انگوروں کے باغات ہیں جن کی بیلیں ٹہنیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔ دشمن کا خاتمہ اور آزادی کی نعمت بنی اسرائیل کو اس لیے حاصل ہوئی کہ انھوں نے طویل عرصہ تک صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ * صبر بے بسی اور بے کسی کا نام نہیں۔ صبر قوت برداشت، قوت مدافعت کو بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ دشمن کے مقابلے میں جرأت، بہادری اور مستقل مزاجی کے ساتھ مسائل و مصائب کا سامنا کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ آخرت میں بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رفاقت و دستگیری حاصل ہوگی مشکلات زندگی کا حصہ ہیں ان سے نکلنے کے لیے روحانی اور الہامی طریقے اختیار کرنے کے ساتھ مادی وسائل اپنانے کا حکم ہے مگر جب تک پوری دلجمعی اور صبر و استقلال کے ساتھ اسباب کو استعمال اور ان کے اثرات و نتائج کا انتظار نہ کیا جائے اس وقت تک مشکلات سے نکلنا ناممکن ہے۔ شریعت نے صبر و استقامت کو مشکلات سے نجات پانے کا اولین درجہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ جب تک آدمی مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لیے اسباب کو مستقل مزاجی اور حوصلے کے ساتھ اختیار نہیں کرے گا تو نہ صرف اس کی جسمانی اور روحانی تکلیف میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ اپنی جذباتیت اور عجلت پسندی کی وجہ سے دنیا و آخرت میں بہتر نتائج سے محروم رہے گا جو صبر و استقامت کے سبب اس کو حاصل ہونے والے تھے۔ (عَنْ أَبِی مَالِکٍ الْأَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ)۔۔ وَالصَّبْرُ ضِیَاءٌ ) [ رواہ مسلم : کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوء ] ” حضرت ابومالک اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا۔۔ صبر روشنی ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ قَالَ رَبُّکُمْ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ أَذْہَبْتُ کَرِیمَتَیْہِ ثُمَّ صَبَرَ وَاحْتَسَبَ کَانَ ثَوَابُہُ الْجَنَّۃَ )[ رواہ احمد] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی معظم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ اعلان کرتا ہے کہ جس کی دو محبوب چیزیں (دو آنکھیں) میں لے لوں تو پھر وہ صبر کرے اور مغفرت کی امید رکھے تو اس کا بدلہ جنت ہوگا۔“ مسائل : 1۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے صبر و استقامت کے ساتھ جدوجہد کرنی چاہیے۔ 2۔ صبر و استقامت کے مقابلہ میں ظالم کا ظلم بالآخر ناکام ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : صبر کی فضیلت : 1۔ اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنے والوں کے لیے ہے۔ (البقرۃ:152) 2۔ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرو۔ (البقرۃ:152) 3۔ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔ (الزمر :10) 4۔ بے شک جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر ایمان کا اظہار کرتے ہوئے صبر و استقامت کا ثبوت دیا انھیں کوئی خوف اور حز ن وملال نہیں۔ (الاحقاف :13)