فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ
آخر ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں سمندر [١٣١] میں غرق کردیا۔ کیونکہ وہ ہماری آیات کو جھٹلاتے اور ان سے لاپروائی برتتے تھے
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ فرعون اور اس کی قوم جب تمام اخلاقی حدود پامال کرچکی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے جب کوئی قوم کفر و شرک تکبر اور تمرد میں آگے ہی بڑھتی جائے تو اس کا وجود انسانی معاشرے میں کینسر کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ جس سے اس علاقے کے رہنے والے ہی نہیں بلکہ زمین و آسمان کی ہر چیز اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اس پر لعنت بھیجتی ہے اس صورتحال میں اللہ تعالیٰ دنیا کے نظام کو چلانے اور قائم رکھنے کے لیے مجرم قوم کا صفایا کردیتا ہے۔ اسی اصول کے تحت اب وقت آن پہنچا تھا کہ فرعون اور آل فرعون کو ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کردیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس قوم کو دریا میں ڈبکیاں اور غوطے دے دے کر ختم کردیا گیا۔ کیونکہ یہ بار بار اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرتے اور دنیا کی لذات میں مگن ہو کر اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کلیتاً غافل اور بے پرواہو چکے تھے۔ جس کے نتیجہ میں انھیں غرقاب کیا گیا۔ جس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی اے میرے رب یہ قوم پر لے درجے کی مجرم ہوچکی ہے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ بس میرے بندوں کو رات کے وقت لے کر یہاں سے نکل جاؤ لیکن یاد رکھنا مجرم قوم تمھارا تعاقب ضرور کرے گی۔ (الدُّخان، آیت : 22تا23) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب رات کی تاریکیوں میں اپنی قوم کو لے کر دریا عبور کرنے کے لیے نکلے تو فرعون نے تمام شہروں میں ہر کارے بھیجے کہ اکٹھے ہوجاؤ۔ ایک چھوٹی سی جماعت نے ہمیں غضب ناک کردیا ہے۔ اس طرح انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کا تعاقب کیا جب بنی اسرائیل نے انھیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے اے موسیٰ ! ہم تو گھیرے جا چکے ہیں۔ سامنے بحر قلزم ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور پیچھے سے دشمن آپہنچا ہے۔ ہم جائیں تو کدھر جائیں ؟ اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ انھیں تسلی دیجیے کہ میرا رب دریا کو عبور کرنے کے لیے کوئی راستہ بنائے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دریا میں اپنا عصا مارا جس سے بحر قلزم پھٹ گیا اور اس کی لہریں پہاڑوں کی طرح بلند ہو کر اپنی جگہ جم گئیں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لے کر بحیرۂ قلزم میں اترے تو فرعون بھی اپنے لشکر و سپاہ لے کر ان کے تعاقب میں بحیرۂ قلزم میں اتر ا۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” (اور کہلا بھیجا کہ) یہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو ہمیں غصہ چڑھا رہے ہیں۔ اور ہم یقیناً ایک مسلح جماعت ہیں۔ ہم فرعونیوں کو نکال لائے ان کے باغات اور چشموں سے اور خزانوں اور بہترین قیام گاہوں سے اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو زمین کا وارث بنا دیا۔ چنانچہ ایک دن صبح کے وقت فرعونی ان کے تعاقب میں چل پڑے، جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو اصحاب موسیٰ چیخے ہم پکڑے گئے۔ موسیٰ نے کہا : ہرگز نہیں میرا رب میرے ساتھ ہے وہ جلد رہنمائی کرے گا۔ چنانچہ ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنا عصا سمندر پر مارو۔ چنانچہ سمندر پھٹ گیا اور ہر حصہ بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہوا۔ ہم دوسروں کو قریب لے آئے۔ اس طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے تمام ساتھیوں کو بچا لیا اور دوسروں کو غرق کردیا۔ اس میں لوگوں کے لیے عبرت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بہت سے نشان ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لاتی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور نہایت مہربان ہے۔“ (الشعراء، آیت : 54تا68) قرآن مجید کے دوسرے مقام پر اس واقعہ کو یوں بیان کیا گیا ہے : ” ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر عبور کر وایا اس کے پیچھے فرعون اور اس کا لشکر زیادتی اور ظلم کے ارادے سے چلا یہاں تک کہ وہ ڈوبنے لگا تو اس نے کہا کہ میں اس اللہ پر ایمان لایا جو بنی اسرائیل کا رب ہے۔ اور میں اپنے ایمان کا اعلان کرتا ہوں۔ لیکن اس کے جواب میں فرمایا گیا کیا اب تو ایمان لاتا ہے؟ جب کہ اس سے پہلے بغاوت اور فساد کرنے والا تھا۔ ہم تیری لاش کو باقی رکھیں گے تاکہ تیرے بعد آنے والے عبرت حاصل کریں۔ اگرچہ اکثر لوگ ہماری آیتوں سے غفلت ہی برتتے ہیں۔“ (یونس آیت 90تا92) مفسرین نے تاریخ کی بنیاد پر لکھا ہے کہ فرعون کے لشکر میں ایک لاکھ گھوڑ سوار اور پندرہ لاکھ پیادے تھے بنی اسرائیل کی تعداد چھوٹے بچوں کے علاوہ چھ لاکھ افراد پر مشتمل تھی اور یہ واقعہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے مصر پہنچنے کے 426شمسی سال بعد پیش آیا بظاہر اتنی بڑی تعداد پر یقین نہیں تاہم واللہ اعلم۔ (حوالہ قصص الانبیاء امام ابن کثیر ) مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون سے بنی اسرائیل پر مظالم کرنے کا انتقام لیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی آیت کو جھٹلانے والوں کا دنیا میں بھی بدترین انجام ہوتا ہے۔