وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ ۚ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۚ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ
اہل جنت اور اہل دوزخ کے درمیان ایک اوٹ [٤٥] حائل ہوگی اور اعراف [٤٦] پر کچھ آدمی ہوں گے جو ہر ایک کو اس کی پیشانی کے نشانات سے پہچانتے ہوں گے۔ وہ اہل جنت کو آواز دیں گے کہ: ’’ تم پر سلامتی ہو‘‘ یہ اعراف والے ابھی جنت میں داخل تو نہ ہوئے ہوں گے البتہ اس کی امید [٤٧] ضرور رکھتے ہوں گے
فہم القرآن : (آیت 46 سے50) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اصحاب اعراف کا جنتیوں کو سلام اور جہنمیوں کو شرم دلانا۔ اعراف کا معنیٰ بلندی ہے جو جنت اور جہنم کے درمیان لامتنا ہی طول و عرض اور بلند و بالا قسم کی دیوار ہوگی اور اس میں ایک دروازہ بھی ہوگا جس کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر سورۃ الحدید آیت 13میں کیا گیا ہے اس پر تشریف فرما لوگوں کو اصحاب الاعراف کے نام سے پکارا جائے گا یہ کون حضرات ہوں گے ان کے بارے میں قرآن و حدیث میں دو اور دو چار کے الفاظ میں وضاحت نہیں ملتی۔ البتہ مفسرین نے متقدمین کے اقوال سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ان سے مراد وہ اصحاب ہوں گے جنھوں نے والدین کی اجازت کے بغیر قتال فی سبیل اللہ میں حصہ لیا ہوگا۔ یہ بالآخر جنت میں داخل ہوں گے۔ ایسے حضرات کو الاعراف پر براجمان کیا جائے گا تاکہ انھیں ان کی کمزوریوں کا کچھ نہ کچھ احساس دلایا جائے۔ یہ اہل جنت کو ان کے نام اور اعزازات سے پہچان کر ان کی خدمت میں سلام عرض کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کریں گے گو ہمیں اب تک تمھاری رفاقت کا اعزاز اور جنت میں داخلہ نصیب نہیں ہوا لیکن ہمیں اپنے رب کے فضل و کرم سے پوری امید ہے کہ وہ ہمیں اپنی جنت میں داخلہ عطا فرمائے گا اس گفتگو کے بعد ان کے چہروں کو جہنم کی طرف پھیر دیا جائے گا وہ جہنم کی بلاؤں اور سزاؤں اور ان میں مبتلا جہنمیوں کو دیکھ کر اپنے رب سے عاجزانہ درخواست کریں گے۔ بار الٰہ! ہمیں جہنم کی ہولناکیوں اور ظالموں کی معیت سے محفوظ فرما کر جنت میں داخلہ نصیب فرما۔ پھر وہ جہنمیوں کے نام اور ان کے چہروں سے پہچانتے ہوئے انھیں شرم دلائیں گے کہ افرادی قوت، اسباب و وسائل کی کثرت اور تمھارا انکار و استکبار تمھیں جہنم میں داخل ہونے سے نہ بچا سکے اور جن لوگوں کو تم دنیا میں حقیر سمجھ کر ان کے ایمان اور صالح کردار پر طعنہ زنی کرتے تھے کہ یہ لوگ کسی صورت میں ہم سے بہتر نہیں ہو سکتے۔ اگر یہ واقعی اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں تو انھیں ہمارے مقابلہ میں دنیا کی نعمتیں کیوں حاصل نہیں ہو سکیں۔ اے جہنم والو! یہ بھی دنیا میں کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ آخرت میں بھی اللہ کے فضل و کرم سے محروم رہیں گے۔ اب دیکھو کہ یہ خوش نصیب کس طرح اپنے رب کی نعمتوں سے سرفراز کیے جا رہے ہیں۔ اصحاب الاعراف کی جہنمیوں کے ساتھ اس گفتگو کے بعد انھیں جنت میں داخلہ کی اجازت دیتے ہوئے اطمینان دلایا جائے گا کہ اب تمھیں کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ اعراف پر بیٹھے ہوئے جہنم کی ہولناکیوں کو دیکھتے ہوئے خوفزدہ تھے اس لیے جنت میں داخلہ عنایت کرکے انھیں حزن و ملال اور خوف و خطر سے مامون رہنے کی تسلی دی گئی ہے۔ کیونکہ جنت آسائش و آرام اور سکون و اطمینان کا گہوارا ہے۔ جب یہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو جہنمی آہ و زاریاں کرکے ان سے فریاد کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ماکولات اور مشروبات تمھیں عنایت کیے ہیں ان میں سے پانی اور کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ہمیں بھی عنایت کیجیے۔ ان کے جواب میں جنتی فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کا اکل و شرب کافروں پہ حرام کر رکھا ہے اس لیے ہم تم کو پانی کا ایک گھونٹ اور کھانے کے لیے ایک ذرّہ بھی نہیں دے سکتے۔ 1۔ ﴿اَھؤُلآءِ ﴾کا اشارہ لایا گیا ہے جو قریب کے لیے استعمال ہوتا ہے ممکن ہے کہ جہنمیوں کی حسرتوں اور ذلتوں میں اضافہ کرنے کے لیے جنت اور دوزخ کے درمیان واقع اس دیوار کا دروازہ ایک دفعہ کھول دیا جائے جس سے یہ جنتیوں کو قریب سے دیکھ سکیں۔ 2۔ اصحاب الاعراف اونچی دیوار پر بیٹھے جنتیوں کو بھی دیکھ رہے ہوں گے شاید ان کے لیے قریب کا اشارہ کیا گیا ہے۔ 3۔ رجال سے مراد مفسرین نے جنت اور جہنم کے سردار لیے ہیں۔ مسائل : 1۔ اصحاب اعراف جنتی اور جہنمیوں کو ان کے نام سے آواز دیں گے۔ 2۔ اصحاب اعراف بالآخر جنت میں داخل کردیے جائیں گے۔ 3۔ جہنمیوں کو ان کا تکبر اور مال و اسباب کچھ فائدہ نہیں دے گا۔ 4۔ جنت میں کسی قسم کا خوف و خطر اور حزن و ملال نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : جنتی بے خوف ہوں گے : 1۔ تم جنت میں داخل ہو جاؤتمہارے اوپرکسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (الاعراف :49) 2۔ جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے لیے مطیع کرلیا اس پر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (البقرۃ:112) 3۔ اے میرے بندو! تمہارے اوپر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (الزخرف :68)