سورة الاعراف - آیت 42

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

البتہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور ہم ہر شخص کو اس کی [٤١] طاقت کے مطابق ہی مکلف بناتے ہیں، تو یہی لوگ اہل جنت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہا کریں گے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 42 سے 43) ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلہ میں جنتیوں کا انعام و مقام۔ جنتیوں کا مرتبہ ومقام اور ان کا اجروثواب ذکر کرنے سے پہلے یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس میں ایک طرف جنتیوں کو سمجھایا گیا ہے کہ جنت کا حصول اور دین پر عمل کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ دوسری طرف جہنمیوں کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ اپنے جرائم کی وجہ سے جہنم میں ہمیشہ سزا پائیں گے۔ یہ ان کے تکبر کا نتیجہ ہوگا۔ اگر یہ لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو دل وجان سے تسلیم کرکے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تو یہ ان کی ہمت سے باہر نہیں تھا لیکن انہوں نے اپنے نفس کی خواہشات کو اپنے رب کی رضا پر مقدم جانا اور اس کے ساتھ تکبر کا رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے ان کا اوڑھنا بچھونا جہنم کی آگ کو بنادیا گیا۔ مفسر قرآن امام رازی (رح) لفظ ” وسع“ کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں وسع کا معنیٰ ہے ایسا کام جو آسانی اور معمولی کوشش سے کیا جا سکے۔ اس کے مقابلہ میں ” جہد“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو کسی مشکل کام کی نشاندہی کرتا ہے اس سے پہلے جہنمیوں کا ایک دوسرے کے لیے بددعا کرنا اور لعنت کرنا بیان ہوا ہے۔ اب مومنوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت کی خوش خبری دے کر یہ وضاحت کردی ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے ان کی آپس میں غلط فہمیوں کی وجہ سے جو ناچاتیاں ہوئیں اور اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں جو رنجشیں پیدا ہوئیں۔ ان سے ان کے دلوں کو پاک اور صاف کردیا جائے گا۔ یہ آپس میں اس طرح شیروشکر اور الفت ومحبت سے رہیں گے جیسے دنیا میں ان کے درمیان کوئی رنجش پیدا ہی نہ ہوئی تھی۔ جنتی باہمی محبت اور جنت کے انعام وکرام پا کر اپنے رب کے ممنون اور شکر گزار ہوں گے اور کہیں گے کہ سب تعریفات اس ذات باری کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنی ہدایت سے سرشار اور سرفراز فرمایا۔ اگر ذات کبریا ہم کو ہدایت سے سرفراز نہ کرتی تو ہم کبھی ہدایت یافتہ نہ ہوتے۔ یقیناً یہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی جدوجہد کا صلہ ہے جو انہوں نے حق بتلانے اور سمجھانے کے لیے فرمائیں۔ جنتی ان خیالات کا اظہار کررہے ہوں گے تو انہیں ایک آواز سنائی دے گی جس میں خوشخبری ہوگی۔ کہ اب تمہیں کوئی فکر لاحق نہیں ہونی چاہیے کیونکہ تمہارے رب نے تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت کا وارث بنا دیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) اور ابوسعید خدری (رض) دونوں سے روایت ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا ایک منادی کرنے والا ندا کرے گا اے اہل جنت ! تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہوگے، زندہ رہو گے تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی، جوان رہو گے تم پر کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا، عیش میں زندگی گزاروگے تمہیں کبھی حزن وملال نہ ہوگا۔ یہی مطلب ہے اللہ کے اس فرمان کا۔ مسائل : 1۔ ایمان کے ساتھ صالح عمل کرنے والے ہی جنتی ہوں گے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مومنین کے دلوں سے رنجشیں دور کردے گا۔ 3۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دیتا ہے۔ 4۔ اللہ نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنے والے جنت کے وارث ہوں گے۔