فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ
پھر شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، انہیں کے سامنے کھول دے اور کہنے لگا:’’تمہیں تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لئے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ یہاں رہنے والے نہ بن جاؤ‘‘
ف 4 علما تفسیر نے لکھا ہے کہ لیبدی میں لام عاقبت کا ہے کیونکہ شیطان کے دل میں یہ نہیں تھا کہ وہ ننگے ہوجائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ لام تعلیل کا ہو اور اس کی غرض ہی یہی ہو، سترکو سو ۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا ننگا ہونا انسان کو طبعابرالگتا ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں، گویا ان کو جنت کا لباس پہنایا گیا تھا جس سے ان کے ستر مستور تھے۔ شجرۃ ممنو عتہ کا پھل کھانے وہ وہ کپڑا اتر گیا وہ ہب بن منبہ کہتے ہیں کہ وہ لباس نورانی تھا جس کی وجہ سے ایک دوسرے کو انکے ستر نظر نہیں آتے تھے درخت کا پھل کھانے سے وہ نور سلب ہوگا ی اور ان کو ایک دوسرے کے ستر نظر آنے لگے ( ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ عیب ڈھکے تھے، یعنی حاجت استنجا اور حات شہوت جنت میں نہ تھی اور ان کے بد ن پر کپڑے تھے وہ کبھی اتارے نہ تھے کہ اتارنے کی حاجت نہ ہوتی تھی یہ اپنے اعضا سے واقف نہ تھے جب یہ گناہ ہو تو آدم بشریٰ پیدا ہوئے اپنی حاجت سے خبردار ہوئے اور اپنے اعضا، دیکھئے۔ ( مو ضح) ف 5 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا کہ صرف اسلیے کہ تم دونوں فرشتے نہ بن جا و یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ شیطان نے نا دونوں کو یوں بہکایا کہ اگر تم دونوں اس درخت سے کچھ بھی چکھ لو گے تو تم میں بھی فرشتوں کی سی خصوصیات فطری کمالات پیدا ہوجائیں گے اس کے بعد نہ ۔ تمہیں کھانے پینے کی کوئی حاجت رہے گی اور نہ تم مروگے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس جنت میں رہو گے۔ ( ابن کثیر) اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ فرشتے مطلق انسان سے افضل ہیں ہاں جزوی فضیلت ضروری ثاتب ہوتی ہے۔