وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایسی کتاب آ گئی جو اس کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے جو ان (یہود) کے پاس ہے اور اس سے پیشتر وہ کفار کے مقابلہ میں (آنے والے نبی کے ذریعہ سے) فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے، تو جب ان کے پاس وہ چیز (کتاب یا رسول، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آ گئی، جسے انہوں نے پہچان بھی لیا تو اس کا انکار کردیا۔ [١٠٥] سو ایسے کافروں پر اللہ کی لعنت ہے۔
ف 5 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے یہودی عرب کے مشرکین سے مغلوب ہوئے تو وہ دعا کیا کرتے تھے کہ نبی آخرالزمان جلد ظاہر ہوں تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر ان کافروں پر غلبہ حاصل کریں اس صورت میں یستفحون کے معنی نصرت اور غلبہ حاصل کرنا ہو نگے۔ ابن کثیر) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے معنی خبر دینے کے ہوں یعنی وہ کہا کرتے تھے کہ عنقریب نبی آخرالزمان ظاہر ہوگا اور ہم اس کے ساتھ مل کر تم پر غالب آئیں گے چنانچہ عاصم بن عمربن قتادہ انصاری روایت کرتے ہیں ہیں کہ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے عرب کے قبائل میں ہم سے زیادہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کوئی نہ جانتا تھا اس لیے کہ ہم یہودیوں کے ساتھ رہتے تھے اور ہو اہل کتاب تھے اور ہم بت پرست وہ ہم سے کبھی مغلوب ہوتے تو کہتے کہ ایک بنی کی بعثت ہونے والی ہے اور اس کا زمانہ آپہنچا ہے اس کے ساتھ مل کر ہم تمہیں عاد وارم کی طرح قتل کریں گے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی ہم نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرلی اور یہ یہود یوں کے بارے میں نازل ہوئی ابن جریر، فتح القدیر) بعض نے حضرت ابن عباس (رض) سے یستفتحون کے یہ معنی نقل کیے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور سے پہلے جب یہو دوں کا عرب سے مقابلہ ہوتا تو وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے دعا کرتے اور کہتے کہ اے اللہ ہم بحق نبی امی تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں دشمنوں پر غلبہ عنایت کر مگر یہ روایت نہایت ضعیف ہے۔ قرطبی نے ابن عباس سے نقل کی ہے۔ (الباب القل سیوطی امستدک حاکم مع تلخیص ج 2 ص 263)