سورة الانعام - آیت 158

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ قُلِ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا یہ اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود آپ کا پروردگار آئے یا اس کی کوئی نشانی (معجزہ) آئے؟ جس دن کوئی ایسا معجزہ آگیا تو اس وقت کسی کا ایمان لانا اسے کچھ فائدہ [١٨١] نہ دے گا جو اس سے پیشتر ابھی تک ایمان نہ لایا ہو یا اپنے ایمان کی حالت میں نیکی کے کام نہ کئے ہوں۔ آپ ان سے کہئے کہ : تم بھی انتظار کرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

یعنی ان تین چیزوں سے کسی ایک کے منتظر ہیں اور ان آیات سے مراد علامات قیامت ہیں اور وہ احادیث میں بکثرت مذکور ہیں مگر دس علامات وہ جو حذیفہ (رض) سے صحت کے ساتھ ثابت ہیں۔ (روح) جامع البیان میں ہے یعنی وہ نشان جوان کے ایمان لانے پر مجبور کردیں مگر جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں بعض آیات سے خاص کر سورج کا مغرب سے طلوع ہونا مراد ہے۔ کذافی المو ضح) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ اس جملہ کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی تفسیر فرمائی ہے اور حضرت ابو ہر یرہ (رض) کی ایک روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوجاتا اور جب وہ طلوع ہوگا مگر اس وقت ایمان لانا کسی کو فائدہ نہ دیگا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی بلکہ یہ تعین متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ (کذافی الروح وابن کثیر بحوالہ صحیحین) اس کا عطف امنت پر ہے یعنی ایمان کی عدم قبولیت کے لیے ان دونوں چیزوں کا عدم شرط ہے جس سے مفہوما یہ ثابت ہوتا ہے کہ نفع کے لیے منع المخلو کے طور پر اک چیز کا تحقق ہی کافی ہے یعنی جب سورج مغرب سے طلوع ہوچکے گا تو اس کے بعد اس شخص کا ایمان قبول نہ ہوگا جو پہلے نہ ایمان لایا اور انہ اس نے معاصی سے تائب ہو کر کار خیر ہی کیا کیونکہ اس وقت ایسے شخص کا ایمان لانا یا عمل کرنا اپنے ارادہ اختیار سے نہ ہوگا بلکہ محض مجبوری کی بنا پر ہوگا کالا یمان عند الغوغرۃ اور کوئی ایما یاعمل اسی وقت معتبر ہوتا ہے جب وہ ارادہ یا اختیار سے ہو الغرض یہاں نفی عموم ہے عموم نفی نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین چیزوں ایسی ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوجائیں گی تو کسی ایسے شخص کو جو اس سئے پہلے ایمان نہیں لایا تھا ایمانلانا اسے کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گا سورج کا مغرب سے طلو ع ہونا دجال اور دبتہ الارض کا ظہور، مگر صحیح یہ ہے کہ اس سے صرف طلوع شمس من المغرب ہی مراد ہو، حافظ ابن حجر (رض) نے فتح الباری میں نقل کیا ہے کہ طلوع شمس والی علامت کے ظہور کے بعد لوگ ایک سو بیس سال تک باقی رہیں گے۔ طلوع شمس میں مغرب کی کیفیت احادیث میں مذکور ہے، ( روح المعانی )