قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
آپ ان سے کہئے کہ : جو وحی میری طرف آئی ہے اس میں میں تو کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام کی گئی ہو الا یہ کہ وہ مردار ہو یا [١٥٧] بہایا ہوا خون ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ وہ چیز اللہ کے سوا کسی اور کے نام سے مشہور کردی گئی ہو۔ ہاں جو شخص لاچار ہوجائے درآنحالیکہ وہ نہ تو (اللہ کے قانون کا) باغی ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ کھانے والا [١٥٨] ہو (تو وہ اسے معاف ہے) کیونکہ آپ کا پروردگار بخش دینے والا اور رحم کرنے والا ہے
ف 1 یعنی ان جانوروں میں سے کسی کے حرام ہونے کا۔ ف 2 یعنی اسے نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راسست کوئی علم حاصل ہو اہو اور نہ اس کے کسی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے مگر وہ غلط طور پر اللہ کا نام لے کر بعض چیزوں کو حلال اور بعض چیزوں کو حرام قرار دے اور اس طرح لوگوں کو گمراہ کرے، مطلب یہ یہ ہے کہ تم لوگوں سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہے۔ (وحیدی) ف 3 اوفسقا عطف علی لخم خنزیر وما بینھما اعتراض واحل لغیر اللہ بہ صفتہ مو ضحتہ اصل میں اھلال کے معنی اواز بلند کرنا کے ہیں یہاں مراد غیر اللہ کے پر کوئی جانور ذبح کرتا ہے جیسے بکرا شیخ سدو کا گا أ سید احمد کبیر کی مر غازین خاں کا تو شہ شاہ عبد الحق کا صخک بی بی فاطمہ کی نذرنیاز پیر فقیر کی یہ سب حرام ہیں ( سلفیہ) ف 4 یعنی مضطر کے لیے بھی ان کا کھانا گناہ تو ہے مگر اللہ تعالیٰ معاف فرمادیگا اس آیت میں اشکال ہے کہ محرکات ان چار چیزوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے وعلاوہ بھی ہیں اس بنا پر علما نے آّیت کی تاویل کی ہے، حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ یعنی جن جانوروں کا کھنا دستور ہے ان میں یہی حرام ہیں۔ ( موضح) یا یہ کہ کہا جائے کہ یہ آیت مکی ہے اور مکہ میں ان اشیا کے علاوہ اور کوئی چیز حرام نہ تھی پھر اس کے بعد یہ مدینہ میں سورۃ المائدہ کے علاوہ اور کوئی چیز حرام نہ تھی پھر اس کے بعد مدینہ میں اور سوتہ بقرہ (آیت 173) نازل ہوئیں تو ان چار چیزوں کے علاوہ چند اور چیزیں بھی حرام قرار دے ت دی گئیں ( دیکھئے مائدہ آیت 3) علاوہ ازیں مدینہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بعض اشیا کو حرام قرار دیا، حد یث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر درندے شکاری پرندے کھریلو گدھے اور کتے کو حرام قرار دیا ہے، (بخاری ومسلم) علما حدیث وفقہ کی اکثریت نے اس آیت کی یہی تاویل کی ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت واحل لکم ما وراع ذالکم کے نزول کے بعد بھی بعض رشتے حرام قرار دیئے ہیں مثلا فرمایا ایک عورت سے نکاح حرام ہے۔ مقصد یہ کہ آیت کے عموم میں حدیث سے تخصیص ہوگی لہذا بعض سلف کا آیت کے عموم میں حدیث سے تخصیص ہوگی لہذا بعض سلف کا آیت مذکور سے ان چار کے علاوہ باقی اشیا کو حلال سمجھنا صحیح نہیں ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے حاٖ فظ ابن عبد البر نے سورۃ الانعام کے مکی ہونے پر اجماع نقل کیا ہے اس آیت میں دراصل بحیرہ سائبہ وغیرہ کی حالت کو واضع کرنا ہے جو جاہلیت میں لوگوں نے اپنی رائے سے حرام قرار دے رکھے تھے ورنہ محرمات کا حصہ نہیں فالا ستثنا منقطع (قرطبی، ابن کثیر )