ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
کل آٹھ جوڑے (نر و مادہ) ہیں بھیڑ کے دو اور بکری کے دو۔ آپ ان سے پوچھئے: ’’کیا اللہ نے دونوں نر حرام کئے ہیں یا دونوں مادائیں یا وہ بچے جو ان ماداؤں کے پیٹ [١٥٥] میں ہوتے ہیں؟ اگر تم سچے ہو تو مجھے علم (وحی الٰہی) کی کوئی بات بتاؤ‘‘
ف 6 لادنے والے جیسے اونٹ اور بیل اور زمین سے لگے ہوئے بھیڑ اور بکری ( مو ضح) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حمو لتہ لا لفظ تمام بوجھ اٹھانے والے جانوروں کو شامل ہے جیسے اونٹ بیل گھوڑا خچر گدھا اور فرش سے بھیڑ بکری مراد ہے مگر بعد آیت میں ثمانیتہ ازواج کا لفظ حمولتہ وفر شا سے بد ل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان سے یہی آٹھ قسم کے جانور مراد ہیں اور پھر جو جانور اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیئے ہیں ان کو انعام فرمایا ہے ( قر طبی) ف 7 یہ زوج کی جمع ہے عربی زبان میں کسی جوڑے کے ہر فرد کو زوج کہا جاتا ہے اور اس میں تذکیر و تانیث کا اعتبار نہیں ہوتا پس ثمانیہ ازواج کے معنی آٹھ افراد کے ہیں اور آیت میں ترجمہ بھی اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ ( مردی ہے کہ جب مالک بن عوف اور اس کے ساتھیوں نے یہ کہا کہ مافی بطون ھذہ الا نعام خالصتہ لذکورناو محرم علی ٰ زواجنا تو ان کے جواب میں کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اگر نر حرام کر رکھا ہے تو سب مادائیں حرام ہوں گی اور اگر بچہ حرام ہے جو بیٹ میں رہ چکا ہے تو نر اور مادہ دونوں حرام ہوں گے مقصود مشرکین کے خود ساختہ محرمات کی تردید ہے کہ بحیرہ سائبہ جانوروں کو انہوں نے اپنی طرف سے حرام کر رکھا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ جانور حلال کئے ہیں۔