وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
وہی تو ہے [١٥٠] جس نے دونوں طرح کے باغات پیدا کئے ایک وہ جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔ دوسرے وہ درخت جو خود اپنے تنے پر کھڑے ہوتے ہیں (ان کی بیل نہیں ہوتی جو ٹٹیوں پر چڑھائی جائے) نیز کھجوریں اور کھیتیاں پیدا کیں جن سے کئی طرح کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں۔ نیز اس نے زیتون اور انار پیدا کئے جن کے پھل اور مزا ملتے جلتے بھی ہوتے ہیں اور مختلف [١٥١] بھی۔ جب یہ درخت پھل لائیں تو ان سے خود بھی کھاؤ اور فصل اٹھاتے وقت ان میں سے [١٥٢] اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ اور بے جا خرچ نہ کرو۔ کیونکہ اللہ اسراف [١٥٣] کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
ف 4 یعنی ان میں سے کچھ حصہ فقیروں) مسکینوں بیوأؤں اور یتیموں کو بطور صدقہ دو، یہ آیت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی تھی، اس وقت رزعی پیدا رکے صدقہ کایہ حکم عام تھا اور اس کی کوئی مقدار مقرر نہ تھی، مدینہ پہنچ کر 2 ھ میں زکوٰۃ (عشر) کی مقدار اور شرح مقرر ہوئی یعنی بارانی زمین کی پیدا وار میں دسواں حصہ اور جس زمین کو کنویں ی امحنت سے پانی لاکر سیراب کیا جائے تو اس کی پیداوار میں سے پیسواں حصہ۔ تفصیللات حدیث وفقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ ( ابن کثیر، قرطبی) مسئلہ، عشر صرف اقوات یعنی اس پیدار پر ہے جو بطور ذخیرہ جمع کر کے مصنوعی تدبیر کے بغیر رکھی جاسکتی ہو اس بنا پر ہے کیونکہ عشر کی فرضیت کے بعد عہد رسالت اور حضرت ابو بکر صدیق کے دور میں بھی ان سے عشر نہیں لیا گیا پھر اگر ان سے عشر ضروری ہوتا توعہد صدیقی میں اس کی طرف ضرور توجہ دی جاتی جب کہ ایک عقال کے اوانہ کرنے پر حضرت ابو بکر (رض) صدیق نے اعلان جہاد فرمایا دیا تھا علامہ قرطبی، نے اس مسئلہ پر تفصیل سے لکھا ہے۔ ( دیکھئے قرطبی، زیر آیت) ف 5 اسراف کے معنی کسی چیز میں حد سے تجاوز کرنے کے ہیں، عام کھانے پینے اور مال کے خرچ کرنے میں اسراف ہوتا ہے اور صدقہ خیرات میں بھی یعنی نہ تو ناحق کوئی چیز وصول کرو اور نہ ناحق چرچ ہی کرو بعض نے لکھا ہے کہ یہ خطاب ولاۃ) حکام) سے ہے یعنی حق واجب سے زیادہ وصول نہ کرو جیسا کہ حدیث میں ہے۔ المعتدی فی الصدقہ کما نعھال کہ صدقہ وصول کرنے میں ظلم کرنے والا اسی طرح گنہگار ہے جیسا کہ زکواۃ نہ دینے والا۔ ایک روایت میں ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس نے ایک دن میں پانچ سو کھجور کے درخت سے پھل اتارا اور اسی روز سارے کا سارا خرچ کردیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سارا مال صدقہ وخیرات میں دے دینا منع ہے۔ (قرطبی)