قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
آپ ان کافروں سے کہئے کہ کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو نہ ہمیں فائدہ دے سکتے ہیں اور نہ ہمارا [٧٨] کچھ بگاڑ سکتے ہیں؟ جب اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہے تو کیا اس کے بعد ہم الٹے پاؤں پھر جائیں؟ جیسے کسی کو جنگل میں شیطانوں نے بہکا دیا ہو اور وہ حیران و پریشان ہو۔ اور اس کے ساتھی اسے پکار [٧٩] رہے ہوں کہ اگر ہدایت درکار ہے تو ادھر ہمارے پاس آؤ۔ آپ انہیں کہئے کہ : ہدایت تو وہ ہے جو اللہ دے اور ہمیں تو یہی حکم ہوا ہے کہ ہم رب العالمین کے فرمانبردار بن جائیں
ف 6 یعنی توحید کی سیدھی راہ چھوڑ کر پھر شرک میں مبتلا ہوجائیں اگر ہم ایسا کریں تو ہماری مثال ایسی ہوگی آیت سے مقصود بت پرستوں کی تردید ہے اور آیت قل انی نھیت ان اعبد الذین الخ کی تاکید ہے (رازی) ف 7 مگر وہ ان کی کوئی بات نہ سنے اور ان بھتنوں کی بات پر چلتا رہے جس کے نتیجہ میں آخر کار تباہ وبرباد ہو (وحیدی) یہ آیت ان مشرکین کے جواب میں نازل ہوئی جنہوں نے مسلمانوں کو شرک کی دعوت دی بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت عبد الر حمن بن ابی بکر الصدیق کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت بلاتے اور حضرت صدیق ان کو ایمان کی دعوت دیتے، بآ لا خر عبد الر حمن مسلمان ہوگئے مگر علمائے محققین نے لکھا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے ایک مرتبہ مروان نے اسی آیت کو عبدالر حمن کے بارے میں میں بطور طعن پڑھا تو حضرت عائشہ (رض) نے اس کی پر زور تردید کی اور فرمایا کہ آل ابوبکر کے بارے میں کوئی ایسی آیت نازل نہیں ہوئی جس سے ذم کا پہلو نکلتاہو۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کی یہ تردید اصح اسناد اواولیٰ بالقبول ہے۔ و اللہ اعلم۔ (فتح الباری تفسیر سورت احقاف )