وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو آپ انہیں کہئے : تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر [٥٧] رحمت کو لازم کرلیا ہے۔ کہ تم میں سے کوئی شخص [٥٨] لاعلمی سے کوئی برا کام کر بیٹھے پھر اسکے بعد وہ توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو یقینا وہ معاف کردینے والا اور رحم کرنے والا ہے
ف 12 پہلی آیت میں انکے طرد سے منع فرمایا۔ اب اس آیت میں ان کے اکرام کا حکم دیا۔ (رازی) یعنی جو لوگ کفر وشرک کے غلبہ کے باوجود اس پر آشوب دور میں آپ (ﷺ) کی دعوت قبول کر کے مسلمان ہو رہے ہیں انہیں امن وسلامتی کی خوشخبری دے دیجئے یعنی یہ کہ اسلام لانے كے بعد وہ اللہ کے عذاب سے مامون ہوگئے۔ اب ا ن سے ان اعمال پر مواخذه نہیں ہوگا جو وہ کفر کی زندگی میں کرتے رہے ہیں۔( المنار، عن ابن عباس) (رض) اس سے معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کا احترام کرنا چاہیے اور انہیں ناراض نہیں کرنا چاہیے (قرطبی) ف 1 نادانی سے گناہ کر بیٹھنے کا مطلب اس کے انجام بد کو نہ سمجھنا ہے۔ ( دیکھئے سورۃ نسا آیت 17) اوپر کی آیتوں میں انذار تھا اب اس آیت میں تبشیر ہے۔