وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوا أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ
اس طرح ہم نے بعض لوگوں کے ذریعہ دوسروں کو آزمائش میں ڈالا [٥٦] ہے تاکہ (وہ انہیں دیکھ کر) کہیں کہ :''کیا ہم میں سے یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا ہے؟'' (دیکھو) کیا اللہ تعالیٰ اپنے شکرگزار بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا ؟
ف 9 یعنی سرداران قریش جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ ف 10 یعنی کیا بلال (رض)۔ صہیب (رض) خباب (رض) سالم (رض) عبد اللہ بن مسعود (رض) سعد بن ابی وقاص (رض) اور دوسرے غریب اور بے کس مسلمان ہی اللہ تعالیٰ كو یہ ایسے نظر آئے ہیں کہ اس نے انہیں ہماری قوم میں سے چن لیا ہے۔ ف 11 یعنی دولتمندوں کو غریبوں سے آزمایا ہے کہ ان کو ذلیل دیکھتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں کہ کیا یہ لا ئق ہیں اللہ کے فضل کے اور اللہ دل دیکھتا ہے کہ اللہ کا حق مانتے ہیں۔ ( موضح) در اصل اللہ تعالیٰ کے ہاں قدرو منزلت ہے تو انہی لوگوں کی ہے جو اخلاص سے اللہ کاشکر بجا لاتے ہیں چاہے وہ کتنے ہی غریب اور محتاج ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خالی دنیوی حسب و نسب اور خوشحالی کی کوئی قدر نہیں ہے جیسے فرمایاİإِنَّ أَكۡرَمَكُمۡ عِندَ ٱللَّهِ أَتۡقَىٰكُمۡĬ ( حجرات) کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ باعزت وہ ہے جو سب زیادہ پر ہیز گار ہے۔