قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ
موسی نے کہا کہ!’’وہ گائے ایسی ہونی چاہیے جس سے خدمت نہ لی جاتی ہو جو نہ تو زمین جوتتی ہو اور نہ کھیتی کو پانی پلاتی ہو، صحیح و سالم ہو اور اس میں کوئی داغ نہ ہو۔‘‘ وہ کہنے لگے : ’’موسیٰ ! اب تم نے ٹھیک ٹھیک پتہ بتلا دیا۔‘‘ (اتنی لیت و لعل کے بعد) انہوں نے گائے ذبح کی جبکہ معلوم ایسا ہو رہا تھا کہ وہ یہ کام نہیں کریں گے۔[٨٥]
ف 3 اسرائیلی روایات میں یہ بھی ہے ہے کہ آخر کار انہیں ان تمام صفات کی گائے ایک ایسے شخص کے پاس ملی جس کے پاس کوئی دوسری گائے نہ تھی اس لیے وہ کہنے لگا میں اپنی گائے اس قیمت پر فروخت کروں گا کہ تم اس کی کھا مجھے سونے سے بھر دو۔ نچا نچہ انہوں نے اسی قیمت پر ان سے یہ گائے خریدی ،۔ (ابن جریر) حدیث میں ہے کہ ابتداء میں اگر وہ کوئی گائے بھی ذبح کردیتے تو کافی ہوجاتی مگر انہوں نے تغنت اور بے جا سوالات کئے تو اللہ تعالیٰ نے تشدید برتا۔ (فتح القدیر ) ف 1 یعنی گراں قیمت اور فضیحت کے خطرے اور ان کے ت عنت کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسے ذبح کرنا نہیں چاہتے۔ حدیث میں ہے کہ اگر انشاء اللہ کہتے و آخر ابد تک حال گائے کانہ کھلتا اس کو ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ سے مرفوعا روایت کیا ہے ،۔ ( فوائد سلفیہ) مسئلہ۔ جس طرح اس ترسہ اوصاف کے بیان کرنے کو تعین کے لیے کافی سمجھا ہے۔ اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے اونٹوں کے بھی اوصاف بیان کیے ہیں، اس سے ثا بت ہوتا ہے کہ اوصاف کے بیان سے حیوان کی تعیین ہوجاتی ہے لہذا حیوان میں بیع سلم جائز ہے یہی جمہور علماء سلف وخلف کا مسلک ہے مگر اما ابو حنیفہ اور علمائے کوفہ اس میں بیع سلم کے جواز کے قاتل نہیں ہیں۔ (ابن کثیر )۔ اس قصہ سے یہود کو تنبیہہ بھی مقصود ہے جس طرح گائے کے زبح کرنے میں طرح طرح کے جھگڑے نکا لنے کی وجہ سے تمہارے بزرگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شدائد میں گرفتار ہوئے اس طرح بھی نبی آخرالزمان کے اوصاف چھپا کر ان کی اتباع سے گریز کی راہیں نکالتے رہو گے تو تمہارا انجام بھی اچھا نہیں ہوگا۔ (قرطبی۔ رازی )