وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ
نیز آپ ان اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ سنائیے۔ جب ان دونوں نے (اللہ کے حضور) قربانی پیش کی تو ان [٥٨] میں سے ایک کی قربانی تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی۔ دوسرے [٥٩] نے پہلے سے کہا :''میں ضرور تمہیں مار دوں گا'' پہلے نے جواب دیا : (''اس میں میرا کیا قصور) اللہ تو صرف پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتا ہے
ف 3 اوپر کی آیات میں یہ بیان فرمایا تھا کہ مخالفین ہر طرح سے مسلمانوں پر مصائب وشدائد لا نا چاہتے ہیں İ إِذۡ هَمَّ قَوۡمٌ أَن يَبۡسُطُوٓاْ إِلَيۡكُمۡالخ Ĭ) مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے مسلمانوں کی حفاظت کررہا ہے اس کے بعد آنحضرت (ﷺ) کو تسلی دینے کے لیے کچھ واقعات بیان فرمائے جن سے یہ ثابت کرنا مقصو ہے کہ جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی نعمتوں سے نوا زا ہے لوگ اس سے ہمیشہ حسد وبغض سے پیش آتے رہے ہیں چنانچہ یہود ونصاریٰ کی مخالفت بھی ان کے تمرد اور حسد وبغض پر مبنی ہےİفَلَا تَأۡسَ عَلَى ٱلۡقَوۡمِ ٱلۡفَٰسِقِينَĬ لہذا ان پر افسوس اور غم نہ کیجئے اب یہاںٱبۡنَيۡ ءَادَمَ کا قصہ بیان کیا جو اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے کیونکہ ایک بھائی کا دسرے کو قتل کرنا حسد کی بنا پر تھا۔ الغرض ان جملہ واقعات سے آنحضرت (ﷺ) کو تسلی دینا مقصود ہے اور ہو سکتا ہے کہ بتانا مقصود ہو کہ یہود اپنے زعم میں اللہ تعالیٰ کے محبوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں İنَحۡنُ أَبۡنَٰٓؤُاْ ٱللَّهِ وَأَحِبَّٰٓؤُهُۥۚĬ اور انبیا کی اولاد ہونے پر ان کو فخر ہے مگر کفر اورحسد وعنادکے ساتھ یہ نسبی شرف ان کے لیے مفید نہیں ہوسکتا اور آدم کے دو بیٹوں کا قصہ اس پر شاہد ہے (کبیر۔ قرطبی) اس سے مقصد تحذیر عن الحسد ہے۔ حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ یہ دونوں آدمی بنی اسرائیل سے تھے یہود کا حسد بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بطور مثال یہ واقعہ بیان کیا ہے جیساکہİمِنۡ أَجۡلِ ذَٰلِكَ كَتَبۡنَاĬالآیۃ کی تفریع اس پر دال ہے (کبیر۔ قرطبی) بِٱلۡحَقِّیعنی یہ کوئی باطل قصہ یا افسانہ نہیں ہے بلکہ امر واقعی ہے (کبیر) ف 4 یہاں تقوی ٰ سے مراد شرک سے بچنا ہے کیونکہ معاصی( گناہ) قبولیت عمل کو مانع نہیں ہوتے اس پر اہلسنت کا اجما ع ہے (قرطبی)