سورة المآئدہ - آیت 13

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

پھر چونکہ انہوں نے اپنے [٣٧] عہد کو توڑ ڈالا لہٰذا ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کردیئے (اب انکا حال یہ ہے کہ) کتاب اللہ کے کلمات کو ان کے موقع و محل [٣٨] سے بدل ڈالتے ہیں اور جو ہدایات انہیں دی گئی تھیں انکا اکثر حصہ بھول چکے ہیں۔ اور ماسوائے چند آدمیوں کے آپکو آئے دن انکی خیانتوں کا پتہ [٣٩] چلتا رہتا ہے۔ لہٰذا انہیں معاف کیجئے اور ان سے درگزر کیجئے۔ اللہ تعالیٰ یقینا احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1 یعنی اس کی راہ میں مال خرچ کرتے رہو گے، جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ اس کا کئی گنا بدلہ عنایت فرمائے گا اس لیے قرآن کی متعدد آیات میں اس مال خرچ کرنے کو’’ قرض‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے یہ خطاب یا تو تمام بنی اسرائیل سے ہے اور یا اس کے مخاطب صرف نقبا ٔہیں (کبیر) ف 2 یعنی ان کے دلوں میں نفاق بھر گیا ہے قسیّۃ یا قا سیۃ اصل میں اس سکے کو کہتے ہیں جس میں ملاوٹ ہو، یہ قسوۃ سے ہے جس کے معنی شدت اورسختی کے ہیں خالص سونا اور چاندی نرم ہوتے ہیں اور جتنی ان میں ملاوٹ زیادہ ہو اتنا ہی وہ زیادہ سخت ہوجاتے ہیں اس تشبیہ کی رعایت سے ان کے دلوں کو جن میں نفاق بھرا ہوتا ہے قا سیۃ فرمایا ہے (قرطبی۔ کبیر) ف3 یعنی ایک لفظ کی بجائے دوسرالفظ رکھ دیتے یا اس کی غلط تاویل کرتے اور اپنے ہی کرتب سے انہوں نے نبی (ﷺ) کی ان صفات کو بد ڈالا تھا جو تورات میں مذکورتھیں (قرطبی) ف 4 یعنی تورات کے بہت سے حصہ پر عمل تر ک کردیا جیساکہ آنحضرت (ﷺ) پر ایمان لانا اور زانی کو سنگسار کرنا وغیرہ (کبیرہ۔ ابن کثیر) ف 5 خَآئِنَةٖ بمعنی مصدر ای الخیانۃ او صفۃ ای علی ٰ فرقۃ خائنۃ(کبیر) یعنی ان سے آئے دن کسی نہ کسی خیانت اور بد عہد ی کا ظہو رہوتا رہے گا یا ان میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہیں گے جو خیا نت اور بد عہد ی کا ارتکاب کرتے رہینگے اور آپ (ﷺ) کو ہرگز ان کی طرف سے امن نصیب نہ ہوگا۔ ف 6 یعنی ان میں چند لوگ ایسے ہیں جو کسی خیانت وبد عہدی کا مظاہرہ نہیں کرینگے۔ ان سے خا ص کر عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی مراد ہیں یا پھر تمام وہ لوگ جنہوں نے کفر کے باوجود کسی قسم کی خیانت یا بد عہدی نہیں کی (کبیر) ف 7 یعنی ان کی انفرادی خیانتوں اوربدعہد یوں سے نہ کہ ان بد عہد یوں سے جو اجتماعی طور پر وہ کرتے ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں تو وہ واضح طورپر حربی قرار پائیں گے جن کی سرکوبی بہر حال کی جائے گی (المنا ر) یا یہ کہ جوان میں سے خیانت کا ارتکاب نہیں کرتے اور اپنے عہد پر قائم ہیں ان کی دوسری لغزشوں سے درگزر فرمائیں (کبیر) ان دونوں صورتوں میں یہ آیت محکم رہے گی ورنہ اسے آیت قتال سے منسوخ کہا جائے گا۔ (کبیر )