وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے انہیں کہا کہ : ’’فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو۔‘‘ [٧٦] چنانچہ اس چٹان سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اور (قوم موسیٰ کے بارہ قبیلوں میں سے) ہر قبیلہ نے اپنا اپنا گھاٹ جان لیا۔ (ساتھ ہی ہم نے انہیں یہ کہہ دیا تھا کہ) ’’ اللہ کے عطا کردہ رزق سے کھاؤ، پیو، مگر (ایک دوسرے کی چیزیں غصب کرکے) [٧٧] زمین میں فساد نہ مچاتے پھرنا‘‘
ف 4۔ بارہ چشمے اس لیے کہ بنی اسرائیل کے بھی کل بارہ اسبا ط (قبیلے) تھے اللہ تعالیٰ نے ہر قبیلہ کے لے الگ چشمہ نکال دیا جزیرہ نمائے سینا میں اب بھی ایک چٹان پائی جاتی ہے جس پر چشموں کے شگاف ہیں اور سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں اور جس مقام پر یہ چٹان موجود ہے وہ عیون موسیٰ کے نام سے مشہور ہے جس پتھر پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) عصا ماتے تھے اس کے متعلق مفسرین عجیب و غریب حکایات نقل کی ہیں کہ وہ پتھر کس شکل کا تھا اور کہاں سے لایا گیا تھا مگر صحیح یہ ہے وہ کوئی سمعین پتھر نہ تھا بلکہ بوقت ضرورت جس پتھر پر بھی عصا مارتے تو اس سے چشمے جاری ہوجاتے حسن بصری سے یہی منقول ہے وھذا اظھر فی المعجز ہ ابین فی القد رہ۔ ( ابن کثیر)