سورة المآئدہ - آیت 4

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کچھ حلال کیا گیا ہے؟ آپ ان سے کہئے کہ تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے [٢٢] لیے حلال کردی گئی ہیں۔ اور ان شکاری جانوروں کا شکار بھی جنہیں تم نے اس طرح سدھایا ہو۔ جیسے اللہ نے تمہیں سکھایا ہے۔ لہٰذا جو شکار وہ تمہارے لیے روکے رکھیں وہ کھا سکتے ہو اور انہیں چھوڑتے وقت اللہ کا نام [٢٣] لے لیا کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بلاشبہ اللہ کو حساب چکانے میں دیر نہیں لگتی

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 10 مواشی کا حکم تو فرمادیا۔ پھر لوگون نے اور چیزوں کو پوچھا تو فرمایا ستھر چیزیں تم کو حلال ہیں۔ سو حضرت ﷺ جو چیزیں منع فرمائیں معلوم ہوا کہ وہ ستھری نہیں جیسے پھاڑنے والا جانور مثلا شیر چیتا باز یا چیل اور اس میں داخل ہوئے مردرار خوار سارے کو 3 وغیرہ اور جسئے گدھا اور خچر اور جیسے کیڑے کے مثلا چوہا وغیرہ (از موضح) ف 11 شکاری جا نور سے ہر وہ درندہ یا پرندہ مراد ہے جس کا شکار کے لیے رکھا اور سدھا یا جاتا ہے اور اس کے سدھائے ہوئے ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ شکار پر چھوڑا جائے تو اس کو پانے مالک کے لیے پکڑے اگر وہ شکار پکڑ کر خود کھانے لگے تو اس کا شکار کھانا درست نہیں ہے اور یہی معنی مما امسکن کے ہیں حضرت عدی (رض) نبی ﷺ یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر اسے (یعنی شکاری کتے کو) چھوڑ تے وقت تم نے اللہ کا نام لیا ہے تو اسے کھا و ورنہ مت کھا و اور اگر اس نے شکار سے کچھ کھالیا ہے تو بھی نہ کھا و کیونکہ اس نے دراصل وہ شکار اپنے لیے پکڑا ہے (بخاری )