يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کچھ حلال کیا گیا ہے؟ آپ ان سے کہئے کہ تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے [٢٢] لیے حلال کردی گئی ہیں۔ اور ان شکاری جانوروں کا شکار بھی جنہیں تم نے اس طرح سدھایا ہو۔ جیسے اللہ نے تمہیں سکھایا ہے۔ لہٰذا جو شکار وہ تمہارے لیے روکے رکھیں وہ کھا سکتے ہو اور انہیں چھوڑتے وقت اللہ کا نام [٢٣] لے لیا کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بلاشبہ اللہ کو حساب چکانے میں دیر نہیں لگتی
ف 10 مواشی کا حکم تو فرمادیا۔ پھر لوگوں نے اور چیزوں کو پوچھا تو فرمایا ستھری چیزیں تم کو حلال ہیں۔ سو حضرت (ﷺ) جو چیزیں منع فرمائیں معلوم ہوا کہ وہ ستھری نہیں جیسے پھاڑنے والا جانور مثلا شیر، چیتا، باز یا چیل اس میں داخل ہوئے مردرار خوار سارے کوا وغیرہ اور جیسے گدھا اور خچر اور جیسے کیڑےزمین کے مثلا چوہا وغیرہ (از موضح) ف 11 شکاری جا نور سے ہر وہ درندہ یا پرندہ مراد ہے جس کو شکار کے لیے رکھا اور سدھا یا جاتا ہے اور اس کے ’’سدھائے ہوئے ‘‘ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ شکار پر چھوڑا جائے تو اس کو اپنے مالک کے لیے پکڑے ۔اگر وہ شکار پکڑ کر خود کھانے لگے تو اس کا شکار کھانا درست نہیں ہے اور یہی معنیمِمَّآ أَمۡسَكۡنَکے ہیں۔ حضرت عدی (رض) نبی (ﷺ) سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا اگر اسے (یعنی شکاری کتے کو) چھوڑ تے وقت تم نے اللہ کا نام لیا ہے تو اسے کھا ؤ ورنہ مت کھا ؤ اور اگر اس نے شکار سے کچھ کھالیا ہے تو بھی نہ کھاؤكیونکہ اس نے دراصل وہ شکار اپنے لیے پکڑا ہے (بخاری )