تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ
ابولہب [١] کے دونوں ہاتھ تباہ ہوں اور وہ (خود بھی) ہلاک ہو
ف 5 یعنی اس کی دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوگئیں۔ یہ ابو لہب (جس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا) نبی ﷺ کا حقیقی چچا تھا لیکن اپنے کفر اور بدبختی کی بدولت آپ کا شدید ترین دشمن تھا اور آپ کو ہر طرح سے ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتا تھا حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب آیت وانذر عشیر تک الاقربین نازل ہوئی تو نبی ﷺ صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور یاصباء کہہ کر اپنے قبیلے قریش کو پکارا۔ جب وہ سب جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا :” مجھے یہ بتائو کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیھچے سے کچھ گھوڑ سوار تم پر حملہ کیا چاہتے ہیں تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے، انہوں نے کہا ” ہمیں آج تک جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوا۔“ فرمایا تو میں ایک درد ناک عذاب کے آنے سے پہلے تمہیں اس سے ڈراتا ہوں۔“ ابواب بولا ” تیرے لئے تباہی ہو کیا تو نے اسی لئے ہمیں جمع کیا تھا؟ آپ پہاڑی سے اتر آئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی۔ (فتح القدیر بحوالہ صحیحین)