وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ
اور میں ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں [٢] (کہ قیامت آکے رہے گی)
ف 12 چونکہ قیامت کے دن ہی اس ملامت کا ظہور ہوگا حتی کہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ نیک لوگ بھی اپنے آپ کو ملامت کرینگے کہ کیوں نہ زیادہ نیکی حاصل کرلی اس لئے مجازاۃ کے وقوع پر ” نفس لوامۃ“ کی قسم کھا کر اس کو بطور شاہد پیش کیا ہے۔ (راز) اور یوم قیامت چونکہ مجازۃ کا ظرف ہوگا لہٰذا اس کا تعلق بھی ظاہر ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” آدمی کا جی اول کھیل اور مزوں میں غرق ہوتا ہے ہرگز نیکی کی طرف رغبت نہیں کرتا۔ ایسے جی کو کہتے ہیں ” امارۃ بالسوء“ (سورۃ یوسف 53) پھر ہوش پکڑا، نیک و بد سمجھا تو باز آیا۔ کبھی اپنی خو پر دوڑ پڑا۔ پیچھے پھر آپ کو الاہنا دیا (ملامت کی) ویسا جی ہے لوامہ پھر جب پورا سنور گیا دل سے رغبت نیکی ہی پر رہی بیہودہ کام سے آپ ہی بھاگے اور ایذا کھینچے۔ ویسے کا نام ہے مطمئنہ (الفجر 27،