سورة النسآء - آیت 65

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

(اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے تنازعات میں آپ کو حکم (فیصلہ کرنے والا) تسلیم نہ کرلیں پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں گھٹن بھی محسوس نہ کریں اور اس فیصلہ پر پوری [٩٧] طرح سر تسلیم خم کردیں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1 اس آیت سے معلوم ہوا کہ آنحضرت (ﷺ) کے فیصلہ کے خلاف دل میں ذرہ بھر بھی تنگی اور ناپسند ید گی محسوس کی جائے تو یہ ایمان کے منا فی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس میرے لائے ہوئے طریقہ کے تابع نہ ہوجائے بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت پہلے قصہ کے ساتھ ہی متعلق ہے۔اور بعض نے لکھا ہے کہ حضرت زبیر (رض) اور ایک انصاری کے درمیان ’’شراج حرۃ‘‘ کے پانی کے بارے میں نزاع ہوگئی آنحضرت (ﷺ) نے حضرت زبیر (رض) سے رعایت کی سفارش کی اور فرمایا اپنے باغ کو پانی دے کر اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دے اس پر انصاری نے کہا یہ اس لے کہ زبیر (رض) تمہارے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ اس رشتے کی رعایت کی ہے اس پر آنحضرت (ﷺ) کو تکلیف محسوس ہوئی اور فرمایا کہ زبیر (رض) اپنے باغ کو اتنا پانی دو کہ دیوار تک چڑھ آئے پھر اس کے لیے چھوڑ دو اس پر انصاری اور زیادہ تلملا یا اور یہ آیت نازل ہوئی (بخاری تفسیر و کتاب الشرب) معلوم ہوا کہ آنحضرت (ﷺ) کا ہر فیصلہ تنقید سے بالا ہے اور ہر حاکم وقت کے فیصلہ سے بلند ہے اور یہ اس لے کہ آپ(ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں (م، ع)