إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا
سوائے ایسے رسول کے جسے وہ (کوئی غیب کی بات بتانا) پسند کرے۔ پھر وہ [٢٤] اس (وحی) کے آگے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے
ف 4 یعنی بطور معجزہ تاکہ وہ اس کی نبوت پر دلیل ہو۔ (نیز دیکھیے سورۃ آل عمران آیت 179) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا غیب کا علم کسی نبی کو بھی نہ تھا۔ اگر تھا تو صرف اتنا جتنا خود اللہ تعالیٰ نے اسے بتایا نجومی کاہن وغیرہ اللہ کے نبی نہیں ہوتے اس لئے ان کے غیب پر مطلع ہوجانے کا سوہل ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امام رازی سے اس مقام پر لغزش ہوئی ہے کہ غیب سے مرادصرف قیامت کے آنے کا وقت ہے اور دوسری باتیں بعض کاہنوں کو بھی معلوم ہوجاتی ہیں چنانچہ شق اور سطبیح نامی دو کاہنوں نے آنحضرت کے ظہور کی بشارت دی اور وہ پوری ہوئی۔ خواب کی تعبیر بتانے والے ایک تعبیر بتاتے ہیں اور وہ سچ نکلتی ہے مگر شق سطیح کا واقعہ آنحضرت کی بعثت سے پہلے کا ہے۔ جب شیاطین آسمان پر پہنچ کر چوری چھپے ” ملا اعلیٰ“ سے کوئی بات سن کر کاہنوں کے کان میں ڈال دیتے تھے اس لئے وہ سچ نکلتی تھی۔ خواب کی تعبیر کا مدار محض اٹکل پر ہوتا ہے جو کبھی پوری ہوتی ہے اور کبھی پوری نہیں ہوتی۔ البتہ پیغمبر جو تعبیر دیں وہ ہمیشہ سچ ہوتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی وحی پر ہوتی ہے۔ (شوکانی) ف 5 یعنی رسول کو بھی جو غیب کی بات پہنچائی جاتی ہے وہ نہایت احتیاط اور حفاظت سے پہنچائی جاتی ہے اس طرح کہ اس کے آگے پیچھے فرشتوں کا زبردست پہرا ہوتا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ شیاطین اس کا کوئی حصہ اچک کر کاہنوں تک پہنچا دیں۔