وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا
اور اگر لوگ (سیدھی راہ پر قائم رہتے تو ہم انہیں باافراط [١٣] پانی سے سیراب کرتے
ف 9 یعنی خوب پانی برساتے جس سے بکثرت پھل اور غلے پیدا ہوتے اور وہ خوشحال ہوتے۔ ” آزمانے“ سے مراد یہ ہے کہ اس میں بھی ان کا امحتان ہو کر آیا خوشحال پا کر شکر بجا لاتے ہیں یا کفر و ناشکری پر اتر آتے ہیں۔ مقاتل کہتے ہیں کہ یہ آیت کفار مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جب ان پر سات سال کا قحط پڑا بعض مفسرین نے طریقہ سے مراد کفر وضلالت کا راستہ ہے یعنی اگر یہ لوگ کفر و ضلالت کے راستہ پر ہی جمع رہتے تو ہم بطور استدراج انہیں خوف بارغ البالی اور خوشحالی دیتے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : فلما نسواما ذکروابہ فتحنا علیھم ابواب کل شی حتی اذا فرحوا بما اوتواحدنا ھم بغتہ فاذا ھم مبلسون“ پھر جب وہ اس نصیحت کو فراموش کر بیٹھے جو انہیں کی گی تھی تو ہم نے ان پر ہر قسم کی خوشحالی کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ بخشوں میں جو انہیں دی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور ان کا حال یہ ہوگیا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔“ (انعام 44) د ’ آزمانے“ کے لفظ کو دیکھا جائیتو اسی دوسرے مطلب کی تائید ہوتی ہے۔ (ابن کثیر)