يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور انہیں سجدہ کرنے کو بلایا جائے گا تو یہ سجدہ [١٩] نہ کرسکیں گے
“ ف 9 یعنی ان کی پیٹھ کی پسلیاں جڑ کر یخ بستہ ہوجائیں گی اور وہ سجدہ کے لئے جھلک نہ سکیں گے۔ اس آیت کی یہ تفسیر حدیث سے ثابت ہے حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ” ہمارا پروردگار اپنی پنڈلی کھولے گا۔ تمام ممن مرد اور عورتیں اس کو سجدہ کریں گے، لیکن جو لوگ دنیا میں محضدکھلاوے اور شہرت کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ رہ جائیں گے، وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تخ ہیک طرح اکڑ جائے گی…یہ حدیث صحیحین اور دوسری کتابوں میں متعدد اسانید سے آئی ہے۔ (شوکانی) بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں کشف ساق“ کنایہ ہے شدت سے کہ قیامت کا دن بڑا سخت ہوگا، چنانچہ جاہد ابراہیم نخعی اور عکرمہ وغیرہ نے یہی تفسیر بیان کی ہے اور حضرت ابن عباس سے بھی متعدد طرق کے ساتھ مروی ہے اور بعض علماء سے ایک دوسری تاویل بھی منقول ہے یعنی ” ساق الشی“ کسی چیز کے اصل کو کہا جاتا ہے پس اس کے معنی یہ ہیں کہ ’ دجس روز حقیقت حال ظاہر کردی جائے گی۔“ چنانچہ بیع بن انس نے اس کی تفسیر ” یوم یکشف الغطاء“ سے کی ہے۔ مگر پہلی تفسیر حدیث سے ثابت ہے کہ یہاں ساق سے مراد سابق باری تعالیٰ ہے اور یہ آیت متشا بہات سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی کوئی تاویل کرنا بدعت پرست متکلمین کا طریقہ ہے۔ سلف صالحین ان کی کوئی تاویل نہیں کرتے بلکہ انہیں ان کے ظاہری معنی مجمول کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ سمع، بصر، میں اور وجہ کی طرح اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ہونا بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس لئے ہم اس پر بلا کیف ایمان رکھتے ہیں۔ متاولین نے الہ حدیث اور سلف کو عدم تاویل کی وجہ سے تجبیم و تشبیہ کا طعنہ دیا ہے حالانکہ دوسری طرف ان کی یہ تاویلات لطفی الی التعطیل ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں، جو لوگ اہل حدیث کو تجسیم و تشبیہ کا قائل قرار دیتے ہیں وہ خود خطاء پر ہیں (وحید)