الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ
اسی نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا کیے [٦]۔ تم رحمن کی پیدا کردہ چیزوں میں کوئی بے ربطی [٧] نہ دیکھو گے۔ ذرا دوبارہ (آسمان کی طرف) دیکھو، کیا تمہیں اس میں کوئی خلل نظر آتا ہے؟
ف 4 یعنی انہیں ایک دوسرے کے اوپر بنایا۔ معراج کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دو آسمانوں یک درمیان پانچ سو برس کی مسافت ہے۔ (ابن کثیر) ف 5 یعنی تمام خلوق حکمت اور کاریگری سے بنائی ہے جس پر بھی غور کرو گے وہ یکساں طور پر اپنے بنانے والے پر گواہی دے گی۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں ” تفاوت“ (فرق) یہ کہ جیسا چاہئے ویسا نہ ہو۔“ ف 6 ” مراد اس سے بار بار نظر کرنا ہے۔“ یعنی ایک دفعہ دیکھنے سے معلوم نہ ہو تو دوبارہ دیکھو۔ یہ ہر اس شخص سے خطاب ہے جو دیکھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔