الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
مرد عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار [٥٧] اور منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ لہٰذا نیک عورتیں وہ ہیں جو (شوہروں کی) فرمانبردار ہوں اور ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق [٥٨] (مال و آبرو) کی حفاظت کرنے والی ہوں۔ اور جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا [٥٩] اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں) تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو (پھر بھی نہ سمجھیں تو) انہیں مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات قبول کرلیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو۔ [٦٠] یقیناً اللہ بلند مرتبہ والا اور بڑی شان والا ہے
ف 3 شریعت نے خانگی شیرازہ بندی کے لیے مرد کو گھر کا قوام (نگران ذمہ دار) قرار دیا ہے اور عورت کو اس کے ما تحت رکھا ہے۔، قرآن نے اس کی دو وجہیں بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ مرد کو طبعی طور پر امتیاز حاصل ہے کہ وہ منتظم بنے اور دسرے یہ کہ گھر کے سارے اخراجات بیوی کے نفقہ سمیت مرد کے ذمہ ہیں۔ اس بنا پر گھر کانگران بننے کا حق مردکو ہے عورت کو نہیں یہی حاْل حکومتی امور کا ہے کہ مسلمان کا امیر یا خلیفہ عورت نہیں ہوسکتی بلکہ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اس کی مذمت فرمائی ہے۔ لن یغلح قوم ولوا امر ھم امئرۃ (کبیر۔ شوکانی) ف 4 اس آیت کی تشریح وہ حدیث کرتی ہے جس میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے بہترین بیوی وہ ہے جسے اگر تم دیکھو تو تمہیں خوش کرے اگر تم اسے کسی بات کا حکم دے تو وہ تمہارے اطاعت کرے اور جب تم تھر میں نہ ہو تو تمہارے پیچھے وہ تمہارے مال کی اواپنے نفس کی حفاظت کرے (ابن کثیر ابن جریر بردایت ابو ہر یرہ) ف 5 یعنی اللہ تعالیٰ نے خاوندوں کو عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم دیکر کا حکم دیکر ان کے حقوق محفوظ کردیئے ہیں اس کے بدلے میں وہ خاوندوں کی غری حاضری میں ان کے مال اور عزت وآبرو کی حفاظت رکھتی ہیں۔ (کذافی شافی) یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ان کے مال و عزت اور حقوق کے حفاظت کرتی ہیں اور خیا نت سے کام نہیں لیے تیں (کذافی الشوکانی ) ف 6 یعنی بآّخر اگر باز نہ آئیں تو انا کا چہرہ بجا کر تھوڑا سا مار سکتے ہو۔ ( شافی) آنحضرت ﷺ نے بعض ناگریز حالات میں ما رنے کی اجازت دی ہے مگر ساتھ ہی اسے ناپسند بھی فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کیا کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح مارتا ہے جس طرح غلام کو ما را جاتا ہے پھر رات کو اس سے ہمبستری کرتا ہے ؟ اور کسی حالت میں ایسی مار پیٹ کی اجازت نہیں ہے جوجسم پر نشان چھوڑ یا جس سے کوئی ہڈی ٹوٹ جائے۔ (ابن کثیر )