قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
اللہ نے تمہارے لیے (ناجائز) قسموں کو کھول دینا واجب [٢] قرار دیا ہے۔ اللہ ہی تمہارا سرپرست ہے اور وہ سب کچھ [٣] جاننے والا' حکمت والا ہے۔
“ ف 7 یعنی اگر نامناسب چیز ہر قسم کھالو، تو اللہ تعالیٰ نے اس کا کافرہ مقرر کردیا۔ (سورہ مائدہ :89) تم اسے ادا کر کے اپنی قسم توڑ سکتے ہو۔ چنانچہ حضرت عمر (یا حضرت ابن عباس) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے کفارہ ادا کیا اور ماریہ سے تعلق قائم رکھا۔ (ابن کثیر بحوالہ نسائی) بعض لوگ (جیسے احناف) کہتے ہیں کہ محض کسیچیز کو اپنے اوپر حرام کرلینا قسم ہے۔ لیکن آیت سے اس کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر عتاب کیا اور پھر فرمایا :” قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم“ اور اس آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں جو واقعات روایات میں مذکور ہیں ان میں واضحطور پر یہ مذکور ہے کہ آنحضرت نے پہلے ایک خبر کو اپنے اوپر حرام کیا اور پھر اس کی قسم کھائی معلوم ہوا کہ قسم سے کفارہ واجب ہوتا ہے نہ کہ محض حرام کرلینے سے۔ (شوکانی)