سورة الطلاق - آیت 2

فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

پھر جب وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو پھر انہیں یا تو بھلے طریقے سے [٧] (اپنے نکاح میں) روکے رکھو یا پھر بھلے طریقے سے انہیں چھوڑ دو اور اپنے میں سے دو صاحب عدل [٨] گواہ بنا لو۔ اور (اے گواہو!) ! اللہ کے لئے شہادت ٹھیک ٹھیک [٩] ادا کرو۔ یہی بات ہے جس کی اس شخص کو نصیحت [١٠] کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا [١١] کردے گا۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 6 مطلب یہ ہے کہ طلاق دو یا رجوع کرو بہرحال ان سے شرافت کا برتائو اور محض تنگ کرنے کی نیت سے رجوع نہ کرو۔ ف 7 مسند عبدالرزاق میں ہے کہ کسی نے حضرت عمران بن حصین سے کہا :” ایک شخص نے طلاق دی پھر رجوع کیا اور گواہ نہیں کیا۔“ فرمایا :” اس نے برا کیا اس نے بدعث کے طریقہ سے طلاق دی اور غیر مضمون طریقہ سے رجوع کیا۔ اسے چاہئے کہ طلاق اور رجوع دونوں پر گواہ کرے اور اللہ سے استغفار کرے۔ بعض کے نزدیک یہ حکم استحباب پر محمول ہے تاکہ تہمت سے بچا جائے اور بعض نے کہا ہے کہ رجوع پر گواہ مقرر کرلینے واجب ہیں اور چھوڑنے پر مستحب امام شافعی اور احمد کا یہی مذہب ہے شوکانی