يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا
اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت [١] کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک حساب رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا پروردگار ہے۔ (زمانہ عدت میں) انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ خود نکلیں [٢] اِلا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں [٣]۔ یہ اللہ کی حدیں [٤] ہیں۔ اور جو شخص حدود الٰہی سے تجاوز کرے تو اس نے اپنے اوپر خود ظلم [٥] کیا۔ (اے مخاطب) تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد (موافقت کی) کوئی نئی صورت پیدا [٦] کردے۔
ف 1 یعنی طہر کی حالت میں جس میں صحبت نہ کی ہو۔ یہ تشریح خود آنحضرت نے فرمائی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ آنحضرت سخت خفا ہوئے اور رجوع کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر طلاق دینا چاہیت ہو تو اس اطہر کے بعد اگلے طہر میں دے سکتے ہو یہی وہ عدت ہے جس کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (شوکانی) احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حیض کے دنوں میں عورت کو طلاق تو ممنوع ہے ہاں اگر طلاق دے دی جائے تو نافذ ہوجائے گی۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے تمام راویوں نے بالاتفاق یہی روایت کیا ہے۔ (دار قطنی 427) ف 2 یعنی وہ وقت یاد رکھو جب طلاق دی گی تاکہ عدت کا ٹھیک ٹھیک حساب لگایا جا سکے۔ سورۃ بقرہ (آیت 128)؛ یہ عدت تین حیض ہے۔ (3) یعنی ان کے شوہروں کے گھروں سے جن میں انہیں طلاق دی گئی ہے۔ ف 4 تو انہیں بطور سزا گھروں سے نکالا جاسکتا ہے۔ کھلی بدکاری سے مراد زنا ہے اور بعض مفسرین کے بقول بدکاری اور بد زبانی بھی … حضرت ابن عمر فرمات یہیں کہ عورت کا عدت پوری ہونے سے پہلے بلا ضرورت نکلنا (بجائے خود) کھلی بدکاری ہے۔ (شوکانی) ف 5 یعنی شاید آدمی کے دل میں عورت کی محبت آجائے اور وہ اپنے کئے پر یشمان ہو کر رجوع کرے۔ اس لئے عورت کو اس کے گھر میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ حکم ہر اس عورت کے لئے ہے جس کو طلاق رجعی دی گئی ہو کیونکہ یہاں ” امرا“ سے مراد رجوع ہے اور تین طلاق کے بعد رجوع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امام احمد بن جنبل اور سلف کی ایک جراعت کی یہی رائے ہے اور بعض احادیث ہیں اس کی تصریح بھی مذکور ہے۔ مگر یہ ہوسکتا ہے کہ یہ حکم عام ہو اور رجعیہ اور مضبوط دونوں کو شامل ہو۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں والرجعیۃ والمبوتہ فی ذلک سواء ھذا الحق حفظہ الرجل (شوکانی)