يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ
کہتے ہیں : اگر ہم مدینہ واپس گئے تو (وہاں کا) عزیز تر آدمی، ذلیل تر آدمی کو نکال باہر [١٣] کرے گا حالانکہ تمام تر عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے لیکن منافق یہ بات جانتے نہیں۔
ف 1 یہ بات بھی عبداللہ بن ابی نے کہی تھی لیکن چونکہ اس نے اس بات کے ذریعہ تمام منافقین کی ترجمانی کی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو تمام منافقین کی بات کے طور پر ذکر فرمایا عزت والے سے کم بخت نے اپنے آپ کو اور ذلت والے سے نبی ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو مراد لیا تھا۔ صحیحین میں ہے کہ مسلمان آنحضرت کے ساتھ غزوہ نبی المصلق میں تھے۔ ایک مہاجر اور ایک انصاری آپ سمیں لڑ پڑے۔ دونوں نے اپنی حمایت کے لئے اپنے اپنے لوگوں کو پکار آنحضرت کو اطلاع ہوئی تو آپ نے اسے جاہلیت کی پکار قرار دیا اور اس کی مدت کی۔ عبداللہ بن ابی کو پتا چلا تو اسے گویا موقع ہاتھ آگیا۔ کہنے لگا ” اچھا اب ان لوگوں کو یہ جرأت ہوگئی ہے اور انصار کو مہاجرین کے خ لاف خوب اکسایا اور بدبخت کہنے لگا ان قریشی کناگالوں کی مثال ایسی ہے کہ اپنے کتے کو پالو تک تمہارے کھانے کو دوڑے۔ آج تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں وغیرہ پھر اس نے قسم کھا کر کہا :” مدینہ پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ بے عزت کو نکال باہر کریگا۔“ آنحضرت کو اس کی یہ بات پہنچ گئی۔ حضرت عمر نے عرض کی۔ اے اللہ کے رسول با اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑادوں۔ آپ نے فرمایا :” رہنے دو ! کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد (ﷺ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔“ (ابن کثیر شوکانی)