وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ۖ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
اور (وہ بات یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! تم مجھے کیوں دکھ پہنچاتے [٤] ہو حالانکہ تم جان چکے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں۔ پھر جب انہوں نے کجروی [٥] اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو کبھی ہدایت نہیں دیتا
ف 8 یعنی انہیں یہ سزا ملی کہ ان کے دل سخت ہوگئے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” یعنی بنی اسرائیل ہر بات میں ضد کرتے اپنے رسول سے آخر مردود ہوگئے۔“ ف 9 اس آنحضرت کو تسلی دی ہے کہ کچھ لوگ اگر جہاد میں پس و پیش کر رہے رہیں تو آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ موسیٰ اور عیسیٰ بھی اپنی قوم سے ایسی تکالیف اٹھا چکے ہیں۔