مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اللہ ان دیہات والوں سے جو (مال) بھی اپنے رسول کو مفت [٧] میں دلا دے وہ مال اللہ، رسول، قرابت والوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ (مال) تمہارے دولت مندوں ہی کے درمیان [٨] گردش نہ کرتا رہے۔ اور جو کچھ تمہیں رسول دے وہ لے لو اور جس سے روکے [٩] اس سے رک جاؤ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ یقینا سخت سزا دینے والا ہے
ف 3 یعنی اس کی تقسیم کے جو مصارف بیان کئے گئے ہیں وہ اس لئے ہیں کہ یتیموں، بیکسوں کی خبر گیری ہوتی رہے اور یہ محض دولت مندوں ہی کی ا لٹ پھیر میں پڑ کر انہی کی جاگیربن کر نہ رہ جائے۔ ف 4 یعنی زندگی کے کسی معاملے کے متعلق آنحضرت(ﷺ) کا جو حکم ہوا اس پر عمل کرو۔ اور جس سے آپ منع فرمائیں اس سے باز رہو۔ اس آیت نے آنحضرت(ﷺ) کے حکم کو ایک مستقل تشریع کی حیثیت دی ہے اور اسے قرآن کی موافقت کے ساتھ مقید نہیں فرمایا۔ لہٰذا آنحضرت(ﷺ) کا جو حکم بذریعہ صحیح روایت ثابت ہوگا وہ واجب العمل ہوگا اور کسی حکم کے قرآن میں بالتصریح مذکور نہ ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ حکم قرآن کے خلاف ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود(رض) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے افزائش حسن کے لئے ہاتھ گود نے مصنوعی بال لگانے اور دانتوں میں سوراخ کرنیوالی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اس پر ایک عورت نے کہا کہ قرآن میں تو یہ مسئلہ نہیں ہے … حضرت عبداللہ بن مسعود(رض) نے فرمایا اگر تم نے واقعی قرآن پڑھا ہوتا تو وہ تمہیں ضرور مل جاتا کیا تم نے آیت İ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُواĬنہیں پڑھی اس نے جواب دیا کہ ” ہاں پڑھی ہے“ فرمایا تو اللہ کے رسول(ﷺ) نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (روح المعانی) ایک حدیث میں آنحضرت(ﷺ) نے تصریح فرمائی ہے۔ ” سن رکھو ! مجھے قرآن ملا ہے اور اس کے ساتھ ویسی ہی ایک اور چیز یعنی سنت جس پر عمل کرنا بھی اسی طرح ضروری ہے۔