لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی [٢٦] مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں [٢٧] اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح [٢٨] کے ذریعہ انہیں قوت بخشی ہے۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی [٢٩] ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہی اللہ کی پارٹی ہے۔ سن لو! اللہ کی پارٹی کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔
ف 7 مطلب یہ یہ کہ اللہ و آخرت پر ایمان اور اللہ و رسول کے دشمنوں سے دوستی دو ایسی چیزیں ہیں جو ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ ف 8 یہ آیت صحابہ کرام (رض) کی شان میں نازل ہوئی۔ چنانچہ حدیث و سیرت کی کاتبوں میں ہے کہ جنگ بدر میں حضرت ابوعبیدہ(رض) نے اپنے والد کو قتل کیا۔ جنگ احد میں حضرت ابوبکر صدیق (رض)اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کے مقابلے میں نکلے۔ حضرت مصعب بن عمیر(رض) نے اپنے بھائی عبید بن عمر کو اور حضرت عمر(رض) نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو اور حضرت علی(رض) حمزہ(رض) اور عبیدہ بن حارث (رض)نے عتبہ شبیہ اور ولید بن عتبه کو (جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے) قتل کیا رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے عبداللہ(رض) نے جو مخلص مسلمان تھے آنحضرت(ﷺ) سے عرض کیا کہ ” اے اللہ کے رسول(ﷺ) اگر آپ حکم دیں تو میں اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں۔“ آپ( ﷺ)نے منع فرمادیا۔ الغرض ان صحابہ نے اللہ و رسول کے مقابل ہمیں اپنے قریبی رشتہ داروں تک کی پروا نہ کی۔ یہ بات ان کے مناقب میں سنہری حروف میں لکھی جانے کی ہے۔ (ابن کثیر وقرطبی) ف 9 یا ” اپنے فیض غیب سے انکی مدد کی“ یعنی انہیں وہ غیبی نور عطا فرمایا جس سے دل کو اطمینان و سکون اور روح کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور پھر دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ صاحب جامع البیان لکھتے ہیں :” یہاں روح سے مراد غلبہ یا نور ایمان ہے ۔واللہ اعلم ۔ ف 1 یہ ہے وہ تصدیق نامہ جو صحابہ کرام(رض) کو اللہ تعالیٰ کی جناب سے حاصل ہوا۔ بایں ہمہ کیا ان لوگوں کی بدبختی کا اندازہ ہوسکتا ہے جو ان کو برا کہتے ہیں؟ شاہ صاحب لکھتے ہیں : یعنی جو دوستی نہیں رکھتے اللہ کے مخالف سے اگرچہ باپ بیٹا ہو وہی سچے ایمان والے ہیں۔ ان کو یہ درجے ہیں۔