أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ اپنی سرگوشی سے پہلے صدقے ادا کرو [١٧]۔ پھر جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے بھی تمہیں (اس سے) معاف کردیا تو اب نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
ف 6 یعنی کیا ڈر گئے کہ ہمارا سارا مال ہی صدقہ میں خرچ ہوجائو گا؟ ف 7 یعنی صدقہ دینے کے حکم سے جو مقصد تھا وہ حاصل ہوگیا اس لئے ہم نے یہ حکم جو وقتی طور پر دیا گیا تھا منسوخ کردیا لیکن اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ ان احکام کو پوری پابندی سے بجا لاتے رہو جو کبھی منسوخ ہونے والے نہیں ہیں جیسے نماز زکوۃ اور ہر عاملہ میں اللہ رسول کی اطاعت اسی سے تزکیہ نفس ہوتا رہے گا۔ فان لم تفعلوا تو خیر جب تم ایسا نہ کرسکے) سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ دینے کا یہ حکم بہت تھڑوی مدت اور عام مسلمانوں کے اس پر عمل کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی اس لئے بعض روایات میں حضرت علی فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کاتب میں ایک آیتی ایسی ہے جس پر نہ مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا اور نہ میرے بعد کوئی اس پر عمل کرسکے گا۔ یاھا الذین امنوا اذا ناجیتم الرسول فقد موا بین یدی بخونکم صدقۃ میرے پاس ایک دنیار تھا میں نے اسے دس درہموں میں فروخت کردیا۔ میں جب بھی رسول اللہ ﷺ میں گفتگو کرتا توایک درہم صدقہ کردیتا پھر اگلی آیت سے آیت منسوخ ہوگئی اور کسی کو اس پر عمل کرنے کا موقع میسر نہ آیا۔ علما نے تفسیر نے یہ قصہ نقل کیا ہے۔ واللہ اعلم (شوکانی وغیرہ)