سورة المجادلة - آیت 11

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے ایمان والو! جب تمہیں کہا جائے کہ مجلسوں [١٢] میں کھل کر بیٹھو تو کھل کر بیٹھو اللہ تمہیں کشادگی [١٣] بخشے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اٹھ [١٤] (کر چلے) جاؤ تو اٹھ جایا کرو۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجے بلند [١٥] کرے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 اس آیت میں مسلمانوں کو آداب مجلس کی تعلیم ہے کہ ذرا کھل کر بیٹھا کرو تاکہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو تکلیف نہ ہو، البتہ اگر بالکل جگہ نہ ہو تو دوسری بات ہے احادیث میں آداب مجلس کی تفصیل دیکھ لی جائے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ حکم ہر اس مجلس کے لئے ہے جس میں مسلمان کسی نیک کام کے لئے جمع ہوں۔ (شوکانی) ف 3 یعنی جب تمہیں کسی نیک کام کے لئے بلایا جائے تو سستی نہ کرو بلکہ چلنے کو فوراً تیار ہوجائو۔ (شوکانی) ف 4 یعنی سچا ایمان اور صحیح علم آدمی کو ادب و تہذیب سیکھاتا ہے اور تواضح سے انسان کے مراتب بلند ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے ہے کہ من تواضح للہ رفعہ اللہ یہ کام اکھڑا اور متکبر قسم کے جاہلوں کا ہے کہ وہ صرف اتنی سی بات پر بگڑ جاتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے لئے کھلے ہو کر بیٹھنے یا مجلس سے اٹھ جانے کے لئے کہا گیا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” اتنی حرکت کرنے (یعنی دوسرے کو جگہ دینے اور دائرہ مجلس کو وسیع کرنے) میں غرور نہ کریں۔ خوئے نیک پر اللہ مہربان ہے اور بدخو سے اللہ بیزار۔ (موضح)