أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ
کیا آپ نے ان لوگوں [٩] کو نہیں دیکھا جنہیں سرگوشی کرنے سے روکا گیا تھا پھر وہ وہی کام کرتے ہیں جس سے انہیں روکا گیا تھا۔ یہ لوگ چھپ چھپ کر گناہ، سرکشی اور رسول کی نافرمانی سے متعلق باتیں کرتے ہیں اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو ایسے طریقے سے سلام کہتے ہیں جس طرح اللہ نے آپ کو سلام نہیں کہا۔ اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ''جو کچھ ہم کہتے ہیں اس پر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا'' ایسے لوگوں کو جہنم کافی ہے۔ جس میں یہ داخل ہوں گے۔ سو ان کا انجام کیسا برا ہے۔
ف 4 مفسرین نے لکھا ہے کہ منافقوں اور یہودیوں کی عادت تھی کہ جب وہ کسی مسلمان کو آتادیکھتے تو علیحدہ ہو کر سرگوشیاں کرنے لگتے، تاکہ گزرنے والا مسلمان یہ سمجھے کہ وہ اس کے یا پیغمبر کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں اور پھر اس مسلمان کو تنگ کرنے کے لئے ایک دوسرے کو آنکھ بھی مارتے مسلمانوں کو اس سے بڑا رنج ہوتا چنانچہ انہوں نے آنحضرت (ﷺ)سے اس کا ذکر کیا۔ آنحضرت( ﷺ)نے ان یہودیوں اور منافقوں کو بلا کر علیحدہ سرگوشیاں کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن وہ باز نہ آئے اور اپنی عادت پر قائم رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ (ابن کثیر) ف 5 یہ خاص طور پر یہودیوں کی عادت تھی کہ وہ رسول اللہ( ﷺ) کے پاس آتے تو معروف طریقہ سے السَّلامُ عَلَيْكَکہنے کی بجائے السَّامُ عَلَيْكَکہتے۔ سام کے معنی موت کے ہیں۔ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی کہ آپ کو موت آجائے۔ آنحضرت(ﷺ) بھی ان کے جواب میں صرف عَلَيْكُمْیا وَعَلَيْكُمْ (یعنی تم پر) فرما دیتے اور بعض اوقات یہود ان حرکات کا اعتراف بھی کرلیتے۔ اس لئے آنحضرت(ﷺ) نے مسلمانوں سے فرمایا :” جب اہل کتاب میں سے کوئی شخص تمہیں سلام کرے تو اس کے جواب میں ”علیک“ کہا کرو ایک مرتبہ چند یہودی آنحضرت(ﷺ) کی خدمت میں آئے اور انہوں نے حسب عادت السَّامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ “ کہہ کر سلام کیا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ میں نے ان کے جواب میں ” عَلَيْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ “ کہا یعنی تم پر موت اور لعنت ہو۔ اس پر آنحضرت( ﷺ)نے فرمایا : ” عائشہ ! اللہ تعالیٰ فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا ۔اگر وہ ایسا کہیں تو تم ان کے جواب میں صرف ”وَ عَلَيْكُمُ “ کہہ دیا کرو۔ (شوکانی) ف 6 یعنی جلدی کیوں کرتےہو ایسی سزا ملے گی کہ اس کے ہوتے کسی دوسری سزا کی ضرورت نہ رہے گی۔ اب رہی پیغمبر کی صداقت تو اس کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ اسے تمہارے دل کی بات کا پتا چل گیا اور ایسا اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہی سے ہوسکتا تھا۔