قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ
اللہ نے یقیناً اس عورت کی بات سن لی [١] ہے جو اپنے خاوند کے بارے میں (اے نبی) آپ سے جھگڑ رہی ہے اور اللہ کے حضور شکایت کر رہی ہے۔ اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے
ف 2 یہ عورت جیسا کہ تعلقات صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عائشہ اور بعض دوسرے صحابہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ خولہ بنت ثعلثہ تھیں۔ ہوا یہ کہ ان کے خاوند اوس بن صامت پر دماغی عدم توازن کا اخر تھا۔ ایک متربہ انہیں دورہ پڑا تو انہوں نے خولہ سے یہ کہہ دیا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ اصطلاح میں اسے ظہار کہتے ہیں اور یہ زمانہ جاہلیت میں طلاق شمار ہوتات ھا۔ اس کے بعد اوس شرمندہ ہوئے اور خولہ مسئلہ دریافت کرنے کے لئے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی خاص حکم نازل نہیں فرمایا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ تو اس پر حرام ہوگئی۔ اب تم دونوں کیونکر مل سکتے ہو۔ وہ شکوہ اور آہ و زاری کرنے لگیں۔ کبھی رسول اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتیں۔ ” اے اللہ کے رسول ! ! انہوں نے مجھے طلاق تو نہیں دی۔“ اور کبھی آسمان یک طرف منہ اٹھا کر کہتیں۔ اے میرے خدا ! اب میں کیا کروں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ انہیں اگر ان کے باپ کو دے دوں تو وہ برباد ہوجائیں گے اور اگر نہ دوں تو انہیں کہاں سے کھلائوں گی؟ الغرض اسی طرح روتی پیٹتی ہیں اور یہ کہتی رہیں کہ میری جوانی تو ان کے پاس گزری، اب بڑھاپا لے کر کہاں جائوں گی؟…آنحضرت ﷺ خاموشی سے ان کی باتیں سنتے رہے۔ اتنے میں حضرت جبرئیل یہ آیتیں لے کر نازل ہوئے اور خولہ کی برکت سے رہتی دنیا تک تمام عورتوں کا بھلا ہوگیا۔ مسند ابن ابی حاتم کی ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر اپنی خلافت کے زمانہ میں سوار کہیں جا رہے تھے کہ ایک بڑھیا نے سواری روک لی اور آپ خاصی دیر تک توجہ سے اس کی باتیں سنتے رہے یہاں تک کہ جب اس کی ضرورت پوری ہوگئی تو وہ چل گئی۔ لوگوں نے عرض کیا۔ ” امیر المومنین ! یہ کیا ہوا کہ ایک بڑھیا کے روکنے پر آپ رک گئے اور آپ کیساتھ بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی رکنا پڑا۔“ فرمایا ! ” جانتیہو کہ یہ بڑھیا کو نتھی؟“ لوگوں نے کہا ” نہیں۔“ فرمایا یہ خولہ بنت ثعلبہ تھی جس کی فریاد اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں سے سنی۔ بھلا عمر کی کیا مجالت ھی کہ اس کی بات نہ سنتا۔ اگر وہ مجھے صبح تک بھی روکے رکھتی تو میں رکا رہتا اور درمیان میں صرف نماز ادا کرنے کے لئے جاتا۔“ (ابن کثیر) ظہار کے حکم کی تفصیل آگے آرہی ہے