وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ۚ أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا
اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو اور تم نے اسے خواہ ڈھیر سا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس [٣٥] نہ لو۔ کیا تم اس پر بہتان رکھ کر اور صریح گناہ کے مرتکب ہو کر اس سے مال لینا چاہتے ہو؟
ف 1 یہ عورتوں کے متعلق چوتھا حکم ہے جب پہلی آیت میں بیان فرمایا کہ اگر سو عشرت عورت کی جانب سے ہو تو مہر واپس لینے کے لیے اسے تنگ کرنا جائز ہے۔ یہاں بتایا کہ جب زیادتی حرام ہے۔ (کبیر) یعنی کہ بلا وجہ تنگ کر کے ان سے مہر واپس لو گے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی بہتان باندھ کر واپس لے رہا ہے اور اس صورت میں تم ان پر دو ہر اظلم کروگے بلا وجہ تنگ کرنا اور مہر واپس لینا۔ اس لیے اسے اثمامبینا فرمایا (کبیر) آپ سے ثابت ہوا کہ جماع کے بعد دیا ہوا مہر واپس نہیں ہوسکتا چنانچہ مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کرلیا۔ جب اس کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ وہ زنا سے حاملہ ہے اس پر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو آنحضرت ﷺ نے ان کے دومیان تفریق کرادی اور مہر واپس لینے سے منع فرمادیا۔ (ابوداود) اس آیت سے دوسرا مسئلہ یہ بھی ثابت ہوا کہ زیادہ مہر کوئی حدمعین نہیں ہے خاوند اپنی حثیت کے مطابق جتنا مہر دینا چاہے دے سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ خطبہ دیا کہ لوگوں زیادہ غلو کے ساتھ مہر نہ باندھا نہ کرو۔ خطبہ کے بعد ایک بڑھیا نے یہی آیت پیش کی۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے کہا یا اللہ ! مجھے معاف فرمادے عمر (رض) سے تو ہر زیادہ فقیہ ہے۔ (ابن کثیر )