ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
پھر ان دونوں کے بعد ہم نے لگاتار کئی رسول بھیجے۔ اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل عطا کی اور جن لوگوں نے عیسیٰ کی پیروی کی ان کے دلوں میں ہم نے نرم دلی اور رحم ڈال [٤٥] دیا۔ اور ترک دنیا [٤٦] جو انہوں نے خود ایجاد کرلی تھی [٤٧]، ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی۔ مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے [٤٨] کی خاطر انہوں نے ایسا کر تو لیا مگر اسے نباہ نہ سکے جیسا کہ اسے نباہنے [٤٩] کا حق تھا۔ ان میں سے جو لوگ ایمان لائے تھے ہم نے ان کا اجر انہیں دے دیا مگر ان میں سے زیادہ تر نافرمان [٥٠] ہی تھے۔
ف 6 یعنی دنیا کو چھوڑ دینا، شادی نہ کرنا اور خلقت سے الگ ہو کر جنگلوں اور غاروں میں رہنا بسنا۔ ف 7 یعنی انہوں نے دو جرم کئے ایک رہبانیت درویشی کو دین کا جزو لاینفک قرار دے لیا اور پھر اس درویشی کے حقوق و آداب کی بھی نگہداشت نہ کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے ابتداء میں توحید اور درویشی کو ایک ساتھ نبھانے کی کوشش کی لیکن حضرت مسیح کے تیسری صدی بعد سے اپنے بادشاہوں کے بہکانے میں آگئے۔ اور تثلیث کے جر میں پھنس کر توحید کہ چھوڑ دیا۔ پھر درویشی تو درکنار اصل ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ درویشی کو جاہ ریاست طلبی کا ذریعہ بنالیا اور ابطل طریقوں سے لوگوں کے مال کھانے لگے۔ القرض جہاد کے فریضہ لو چھوڑ کر تصرف کی رسوم اتخیار کرنا ہی رہبانیت ہے جس کی قرآن نے مذمت کی ہے اور پھر درویشی یا دینی پیشوائی کو جاہ و ریاست اور دنیا طلبی نصاریٰ میں عا مو باکی شکل اختیار کر گیا تھا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ فقیری تا اور تارک دنیا بننا نصاریٰ نے رسم نکالی، جنگل میں تکیہ لگا کر بیٹھتے نہ جو رکھتے نہ بیٹا کماتے نہ جوڑے محض عبادت میں رہتے۔ نہ کرنے نہ جوڑتے محض عبادت میں رہتے۔ خلق سے نہ ملنے اللہ نے بندوسوں پر یہ حکم نہیں رکھا مگر جب اپنے اوپر نام رکھا ترک دنیا کا پھر اس پردے میں دنیا چاہنی بڑا وبال ہے۔ (موضع) ف 8 حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرماا : ایماندار رہنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور بے ایمانی سے مراد وہ ہیں جنہوں نے مجھ سے کفر کیا۔