سورة الحديد - آیت 25

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

بلاشبہ ہم نے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔ اور لوہا (بھی)[٤٢] نازل کیا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لئے اور بھی فائدے ہیں اور اس لئے بھی کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ اسے دیکھے بغیر کون اس کی [٤٣] اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے اور اللہ بڑا طاقتور ہے اور زبردست ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 11 یعنی عدل و انصاف کا حکم دیا۔ ف 12 أَنْزَلْنَاکے معنی اتارنا بھی ہیں اور پیدا کرنا بھی یہاں پیدا کرنا مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ لوہے کو کانوں سے نکالنا اور اس کی صفت کی تعلیم دینا مراد ہے۔ نیز دیکھیے سورۃ انعام( آیت 43) ف 13 جیسے تلوار بندوق اور دوسرے جنگی ہتھیار اس میں اشارہ ہے کہ دنیا میں امن و امان قائم کرنے کیلئے کتاب و قانون عدل و انصاف کے علاوہ اس شخص کی بھی ضرورت ہے جو ہاتھ میں تلوار رکھتا ہواور اسلام میں جہاد کا حکم بھی کتاب الٰہیاور قانون عدل و انصاف پھیلانے کے لئے ہے ایک روایت ہے کہ آنحضرت(ﷺ) نے فرمایا ! مجھے قیامت سے پہلے تلوار دے کر بھیجا گیا ہے تاکہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ گردانا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے میرا رزق میرے نیزے کے زیر سایہ رکھا ے اور اس شخص کے لئے ذلت اور محکومیت رکھی ہے جو میری مخالفت کرے۔ (ابن کثیر) ف 1 یعنی محض آنحضرت(ﷺ) کی تصدیق کرتے ہوئے۔ ف 2 یہ دیکھے کہ کسی کا مقصد تلوار اٹھانے سے دین حق کا بول بالا کرنا ہے۔ ف 3 یعنی اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ وہ خود زور والازبردست ہے اس نے جو تمہیں جہاد کا حکم دیا اس سے مقصد تمہاری وفاداری کا امتحان لینا ہے۔