هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اسی نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر [٥] قائم ہوا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی، اسے بھی جانتا ہے اور جو نکلتی ہے اسے بھی (اسی طرح) جو چیز آسمان سے اترتی ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا [٦] ہے اسے بھی۔ اور جہاں کہیں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو [٧] کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے
ف 12 جیسے بارش کا پانی اور بیج وغیرہ۔ ف 1 جیسے نباتات اور معدنیات وغیرہ ف 2 جیسے بارش فرشتے، شرعی احکام اور قضاء و قدر کے فیصلے وغیرہ ف 3 جیسے فرشتے اور بندوں کے اعمال وغیرہ ف 4 اس لئے صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ جب حضرت جبرئیل نے آنحضرت سے احسان کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی معیت بلحاظ علم کے ہے۔ کذا قال السلف بلکہ حافظ ابن عبدالبر وغیرہ نے لکھا ہے کہ اس پر صحابہ اور تابعین کا اجماع ہے اور اہل علم میں سے کوئی بھی اس کا مخالف نہیں۔ (ابن کثیر و شرح حدیث النزول)